بورسیپا عراق کے بابلی تہذیب کے قدیم تاریخی آثار

بورسیپا عراق کے بابلی تہذیب کے سب سے نمایاں آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک مقام ہے ۔ بابل شہر ہزاروں سال قدیم تاریخی ،آثار قدیمہ ،مذہبی اور ثقافتی مقامات سے پُر ہیں جو اپنے اندر کئی تاریخی و عمرانی  خزانے چھپائے ہوئے ہیں جن میں سے بعض اب بھی محفوظ ہیں اور کچھ مختلف عوامل کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں اور بعض جگہیں ایسی ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہیں۔

بورسیپا شہرکا محل وقوع

بورسیپا ، شہرحلہ سے ۱۵ کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ نجف اشرف کے راستے میں واقع ہے  اور اس کا برج یعنی چبوترا حلہ اور ذی الکفل کے درمیان سڑک پر ایک اونچا مینار کے طور پر  ہے جسکی اونچائی تقریبا ۴۷ میٹر ہے اور اس شہر میں  کئی تاریخی مقامات ہے جن میں  جائے پیدائش حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ نمرود کے آثار خاص کر زقورہ پر مشتمل ہے

  ziggurat

بورسیپا کا معنی

تاریخی مصادر میں  جس چیز کی جانب اشارہ کیا ہے  اس کے مطابق لفظ بورسیپا اصل میں یہ سومری زبان  جو کہ( باد، سی، ا، اب ، با ) سے بنا ہے

اور اکدی میں برسیب یا تل برسیب کہا جاتا ہے اور آج کل اسےبرس نمرود یا  آثار نمرود کہا جاتا ہے اور یہ سومری عہد کا ایک تاریخی اور اہم قدیمی شہر تھا اور بحیرہ کے اطراف میں اسکی بنیادیں ہیں اور اس  شہر میں ایک زقورہ زگگورت تھا جوکہ ابھی تک موجود ہے۔

تاریخی پس منظر

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بورسیپا شہر کا تعلق

 Third dynasty of Ur 

 یعنی ار کے تیسرے خاندان کے دور  سے جا ملتا ہے ۔ یہ عہد بابلی میں بابل کی طاقت کا مرکز تھا اور نویں صدی قبل مسیح میں جب کلدانی اس میں آباد ہوا تھا  لیکن اس شہر کی ہیکل اور انکا معبد بادشاہ الاخمینی احشویرورش کے دورہ حکومت میں تباہ و برباد ہوگیا

دریافت

یہ شہر ماہر آثار قدیمہ ہنری کریسوک راولنسن کی قیادت میں ۱۸۵۴ میں دریافت ہوا تھا اور وہاں ایک معبد یعنی  مندر کا بھی انکشاف کیا تھا جسکی تعمیر کلدانی بادشاہ نبوکدنز ار دوم کے دور کی ہے جسے سال  ۱۸۷۹ اور ۱۸۸۱ کے درمیان دریافت کیا گیا تھا  جسکی قیادت ماہر آثار قدیمہ ہرمز رسام  برطانوی تحقیقاتی ٹیم  کے ساتھ کر رہے تھے۔