اسلام میں بخل کی مذمت کا فلسفہ اور اس کے برے اثرات

تحریر سردار حسین

جس طرح انسانی جسم کو مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اسی طرح معاشرے کو بھی مختلف قسم کی بیماریاں عارض ہوتیں ہیں۔
 ان بیماریوں کا علاج کیئے بغیر نہ جسم درست کام کرتا ہے اور نہ معاشرہ کمال و ترقی پاسکتا ہے۔
 لہذا انسانیت کے کمال اور معاشرے کی ارتقاء کے لیے بھی ان لاحق بیماریوں کا علاج بہت ضروری ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی معاشرہ تب تک بیماریوں سے پاک نہیں ہو سکتا جب تک اس معاشرے کا فرد اپنی غلطیوں کی اصلاح نہ کرے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ فرد ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا ہے۔ جب اس معاشرے کی بنیادی اکائی مختلف بیماریوں سے دوچار ہو تو وہ معاشرہ اور سوسائٹی بھی لا محالہ مختلف جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائے گی۔ لہذا ایک صحتمند و معتدل معاشرے کے قیام کے لیے فرد اور شخص کا بیماریوں سے محفوظ رہنا انتہائی ناگزیر ہے۔
فرد کا اپنی اصلاح کرنا اور اپنے آپ کو سدھارنا بہت ضروری ہے۔ اصلاح اور تربیت تب تک ممکن نہیں جب تک انسان کو پہلے ان بیماریوں کی شناخت اور معرفت  نہ ہو۔
 لہذا ان تمام بیماریوں سے آگاہی و آشناہی اور انکے مضر اثرات کا جاننا بہت اہم ہے تاکہ انسان ان تمام بیماریوں سے محفوظ رہ سکے ۔
ان معاشرتی بیماریوں سے آشنائی و آگاہی کے لیے ماہر طبیب  کی جانب رجوع کرنا عقلاء کی روش ہے اور معاشرے کی بیماریوں کا علم رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اور انکی عترت برحق  علیہم السلام سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

اس لیے ان بیماریوں کی شناخت اور انکے برے اثرات سے نجات کے لیے آئمہ علیہم السلام کی احادیث کی جانب رجوع کیا جائے گا۔
پس جب آئمہ علیہم السلام  کی احادیث و اقوال کی جانب نگاہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ ان بیماریوں میں سے ایک بیماری بخل ہے اور یہ ان معاشرتی بیماریوں میں سے ایک خطرناک مرض ہے کہ جن سے چھٹکارہ پائے بغیر انسان بلند مقامات تک نہیں پہنچ سکتا  اور نہ وہ معاشرہ ،معاشرتی و اقتصادی طور پر ترقی کرسکتا ہے۔
پس بخل لغت میں امساک اور روکنے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں بخل سے مراد یہ ہے کہ جہاں پر انسان کو خرچ اور بذل کرنا ضروری ہو وہاں پہ ہاتھ روکے لے بالفاظ دیگر اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے موجود چیزیں جو اسکی دسترس میں ہیں اور ان کی اپنی ضروریات و احتیاجات سے زیادہ بھی ہیں، کسی ضرورت مند کو نہ دینا بخل کہلاتا ہے۔ بخل عقلا و نقلا بری صفت ہے جیسا کہ امیر المومنین علی ابن طالب علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ  البخل عار
  بخل و کنجوسی کرنا عیب ہے اور عیب کی وجہ بھی شاید یہ ہو کہ کنجوسی ایک فرد حر اور عبد آزاد کی شخصیت سے ساز گار نہیں اور وہ لوگ جو اس کنجوسی کی صفت سے متصف ہوتے ہیں لوگ ان سے نفرت و کراہت کرتے ہیں حتی اس کے اپنے قریبی رشتہ دار اور دوست احباب بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔
دوسرا بخل کی وجہ سے انسان قسی القلب اور سنگ دل بن جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی نگاہوں کے سامنے لوگوں کی احتیاجات و ضرورتوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کانوں سے انکی درد بھری آوازوں  اور آہوں کو سنتا ہے اور پھر بھی وہ مدد نہیں کرتا ۔
 حقیقت میں یہی قساوت قلبی ہے جو  مال و ثروت سے محبت اور فقر کے خوف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جسکی وجہ سے بخیل انسان سے،لوگ نفرت کرتے ہیں۔

جیساکہ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے : البخل ان یری الرجل ما انفقہ تلفا و ما امسکہ شرفا
بخل یہ ہے کہ انسان خرچ کرنے کو تلف شمار کرے اور مال کو خرچ نہ کرنے کو شرف سمجھے۔
پس بخیل اپنی عادت یا مال سے انتہائی وابستگی کی وجہ سے بسا اوقات وہ اپنے آپ پر اور اپنے متعلقین پر حتی اپنی بیوی بچوں پر بھی مال خرچ کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔
 اس غیر منطقی،مال سے چاہت اور وابستگی کی وجہ سے بساوقات وہ اپنے بچوں اور عائلہ کی موت کی تمنا کرتا ہے اور یہ انسان کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔
امام علی علیہ السلام کا فرمان ذی وقار ہے کہ عجبت للبخیل یستعجل الفقر الذی منہ ھرب، و یفوتہ الغنی الذی ایاہ طلب، فیعیش فی الدنیا عیش الفقرآء و یحاسب فی الاخرت حساب الاغنیاء۔
 مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقر و ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے اسکی کی طرف وہ تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوشحالی کا طالب ہوتا ہے وہی اسکے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پس وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اور آخرت میں دولت مندوں کی طرح اس کا محاسبہ ہوگا۔
پس امام علیہ السلام کی اس خوبصورت تعبیر سے بخل کرنے کا جو تصور  انسان رکھتا ہے، وہ بھی کسی طرح حاصل نہیں ہوتا  کیونکہ وہ  تو فقر و ناداری سے خائف ہوتا ہے اور اسکی وجہ سے وہ بخل کرتا ہے۔ یوں وہ اس تصور کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کرتا ہے۔ 
اور یا تو وہ بخل غنی اور با ثروت ہونے کی خاطر کرتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل میں اچھی زندگی گزارے اور اس طرح وہ اپنے حال کو فقیروں کی طرح بسر کرتا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے بخل کی وجہ سب سے معنوی و روحانی نقصان یہ ہے کہ کل قیامت کے روز اس کا حساب و کتاب امیروں جیسا ہوگا جبکہ اس نے دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزاری ہو گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس دنیا میں مال و دولت کی فراوانی تھی اور اسے خرچ کرنا چاہیے تھا اور اس نے نہیں کیا  لہذا اسکا محاسبہ امیروں جیسا ہوگا۔
تبھی تو احادیث میں اس کی شدت سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے : البخل بعید من اللہ بعید من الناس ،قریب من النار
 کنجوسی اللہ سے دور کرتی ہے اور لوگوں سے دور کرتی ہے اور جہنم کے قریب کرتی ہے 
اسی طرح کتاب فقہ الرضا میں وارد ہوا ہے کہ ایاکم و البخل فانہ عاہت لا یکون فی حر و لا مومن انہ خلاف الایمان 
بخل سے پرہیز کرو چونکہ یہ ایک آفت ہے جو نہ آزاد افراد میں موجود ہوتی ہے اور نہ ہی مومن میں ، اس لیے یہ ایمان کے خلاف ہے ۔
لہذا جو اس بری اور خطرناک بیماری سے اپنے آپ کو بچاتا ہے تو  یہ اس کے لیے باعث شرف و بزرگی ہے جیساکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا من برء من البخل نال الشرف'' جو شخص کنجوسی و بخل سے کنارہ کشی کرتا ہے وہ شرافت و بزرگی پا لیتا ہے۔ 
لہذا اس مذموم صفت سے بچنا انسان کے لیے باعث شرافت اور بزرگی ہے