سوانح حیات امام حسین علیہ السلام

تاریخ ولادت امام علیہ السلام 3 شعبان المعظم 4 ہجری 

جائے ولادت مدینہ منورہ

اسم مبارک و نسب 

اسم مبارک حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب علیھم السلام

والدہ ماجدہ فاطمة الزھرا (علیھا السلام) بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ

آپ علیہ السلام کی کنیت ابو عبد اللہ 

آپ علیہ السلام کا لقب

الرشيد ، الطيِّب ، السيد ، الزكي ، المُبارك ، التابع لِمَرضاة الله ، الدليل على ذاتِ الله ، السبط ، سيد شباب أهل الجنة ، سيد الشهداء ، أبو الأئمة   

امام عالی مقام جنگ جمل و جنگ صفین اورجنگ نہروان میں اپنے والد گرامی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ شریک ہوئے 

جبکہ کربلاء کی جنگ میں جو کہ حق و باطل کے درمیان لڑی گئی اس جنگ میں آپ خود سربراہ لشکر تھے  

آپ علیہ السلام کی انگوٹھی مبارک پہ یہ عبارت ،،ہر اجل لکھا ہوا ہے،، لکھی ہوئی تھی ۔

آپ علیہ السلام کی عمر مبارک 57 برس تھی

آپ علیہ السلام کی مدت  امامت 11 برس

تاریخ شہادت 10 محرم الحرام سنہ61 ھ 

جائے شھادت کربلاء مقدس 

آپ علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفے ص کے دین کی بقاء کی خاطر یزید جیسے  فاسق و فاجر کے لشکر سےجنگ  لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماء گئے

روضہ مبارک کربلاء معلی عراق

امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کا تیسرا اور عصمت و طھارت میں پانچوں نمبر پر ہے - آپ کی عبادت, آپ کے زھد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب بھی قائل تھے- آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں پچیس  مرتبہ  پیدل حج کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا  حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے- چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل خالی ہاتھ  واپس نہیں جاتاتھا- اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں  کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ  جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی بھی عزتِ نفس کا خیال کرو

آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے ۔ آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا  کہ انہوں نے آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو آپ نے  فوراً  قبول کی اور زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھ گئے  

 اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات بھی نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- -

 آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویرواقع کربلا میں سب پر عیاں ہوگیا- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن کی اصلاح  کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ  ہٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی

یوں آپ علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفے ص کے دین کی بقاء کی خاطر یزید جیسے  فاسق و فاجر کے لشکر سےجنگ  لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماء گئے