خطبہ غدیر کے اہم نکات

خطبہ غدیر کے اہم نکات

تحریر: شھباز حسین مہرانی

اٹھارہ ذوالحجہ کا دن ایک تاریخی واقعہ کی یاد دلاتا ہے جس میں رسول اللہ ص نے اپنے بعد اپنا جانشین اور امت کی رہنمائی کے لیے اپنا نائب معین فرمایا ،جسے امت امام المتقین ، امیر المومنین علی ابن طالب علیھما السلام سے جانتی ہے اور یہ اعلان صرف  ایک عام انداز میں بیان نہیں فرمایا بلکہ بڑے شان و شوکت سے اور ایک منفرد انداز میں بیان فرمایا اور جس مقام پر معین فرمایا جسے غدیر خم کا مقام کہتے ہیں اور اس مقام پر جس خطبے کو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کے مجمع میں بیان فرمایا اسے خطبہ غدیر کہتے ہیں اور ان شاء اللہ ہم اس مقالہ میں اس خطبے کےچند  اہم نکات کو  شواہد کے ساتھ مختصراً بیان کریں گے ۔اور یہ خطبہ بحار الأنوار (ط  بيروت)، ج‏37، میں موجود ہے ۔

سب سے پہلے

 اس خطبے کی ابتدا رب جلیل کی حمد اور ثناء سےہوتی ایک مقام پر آپ ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ يَلْحَظُ كُلَّ عَيْنٍ وَالْعُيُونُ لا تَراهُ. وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے، اگرچہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی۔

اس مختصر جملہ میں آپ ﷺ نے ایک مکمل بحث کو سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آنکھیں  صرف ان  چیز وں کو درک کرتی ہیں جو رنگ اور کیفیت پر مشتمل ہوں اللہ تعالیٰ تو رنگوں اور کیفیتوں کا خالق ہے  ۔

اسی طرح آپ ﷺ  شان خداوندی بیا ن کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ لا يَعْجَلُ بِانْتِقامِهِ، وَلا يُبادِرُ إِلَيْهِمْ بِمَا اسْتَحَقُّوا مِنْ عَذابِهِ ۔ اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا۔

وَالَّذي يُنْفِذُ أَمْرَهُ بِلا مُشاوَرَةِ مُشيرٍ وَلا مَعَهُ شَريكٌ في تَقْديرِهِ وَلا يُعاوَنُ في تَدْبيرِهِ۔ اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذ ہے ، اور نہ ہی اس کی تقدیر میں کوئی اسکا شریک ہے، اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے۔

اسی طرح اسی خطبے میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے

 کہ اس خطبہ میں مختلف مقامات پر آپ ﷺ نے مولا علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بیان فرمایا ہے ۔ ان مقامات میں ایک دو نمونے ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں ۔

مَعاشِرَ النّاسِ، فَضِّلُوهُ فَقَدْ فَضَّلَهُ الله، وَاقْبَلُوهُ فَقَدْ نَصَبَهُ الله. مَعاشِرَ النّاسِ، إِنَّهُ إِمامٌ مِنَ الله، وَلَنْ يَتُوبَ الله عَلي أَحَدٍ أَنْكَرَ وِلايَتَهُ وَلَنْ يَغْفِرَ لَهُ،

اے لوگو!علی ؑ کو افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔

اے لوگو ! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہو گی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے۔

ایک اور مقام ارشاد فرماتے ہیں کہ : أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِالله وَ رَسُولِهِ (لَمْ يَسْبِقْهُ إِلَي الْايمانِ بي أَحَدٌ)، وَالَّذي فَدي رَسُولَ الله بِنَفْسِهِ، وَالَّذي كانَ مَعَ رَسُولِ الله وَلا أَحَدَ يَعْبُدُ الله مَعَ رَسُولِهِ مِنَ الرِّجالِ غَيْرُهُ. أَوَّلُ النّاسِ صَلاةً وَ أَوَّلُ مَنْ عَبَدَ الله مَعي. أَمَرْتُهُ عَنِ الله أَنْ يَنامَ في مَضْجَعي، فَفَعَلَ فادِياً لي بِنَفْسِهِ۔

وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لائے اور وہ دل و جان کو رسول پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے، وہ اس وقت  رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علاوہ کوئی عبادت خدا کرنے والا نہ تھا (انھوں نے لوگوں میں سب سے پہلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے، میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہوئے میرے بستر پر سو گئے۔

تیسرا نکتہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے  غدیرخم کے مقام پر رکنے کا حکم ہو نا

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ مولا علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کےلیے اس مقام پر  رک جائیں اور لوگوں کے لیے اپنے بعد واضح طور پر جانشین مقرر فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے  اسی خطبہ میں اس بات کو واضح انداز میں بیان فرمایا کہ : لا الہ إِلا هَو إِلاَّ هُوَ لاِنَّهُ قَدْ أَعْلَمَني أَنِّي إِنْ لَمْ أُبَلِّغْ ما أَنْزَلَ إِلَي (في حَقِّ عَلِي) فَما بَلَّغْتُ رِسالَتَهُ، وَقَدْ ضَمِنَ لي تَبارَكَ وَتَعالَي الْعِصْمَةَ (مِنَ النّاسِ) وَ هُوَ الله الْكافِي الْكَريمُ.

اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی (ع) کے متعلق مجھ پر نازل فرمایا ہے، تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے لوگوں کے شر سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لیے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے۔

فَأَوْحي إِلَي: (بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحيمِ، يا أَيُهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ - في عَلِي يَعْني فِي الْخِلاَفَةِ لِعَلِي بْنِ أَبي طالِبٍ - وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَالله يَعْصِمُكَ مِنَ النّاسِ).

مَعاشِرَ النّاسِ، ما قَصَّرْتُ في تَبْليغِ ما أَنْزَلَ الله تَعالي إِلَي، وَ أَنَا أُبَيِّنُ لَكُمْ سَبَبَ هذِهِ الْآيَةِ: إِنَّ جَبْرئيلَ هَبَطَ إِلَي مِراراً ثَلاثاً يَأْمُرُني عَنِ السَّلامِ رَبّي - وَ هُو السَّلامُ - أَنْ أَقُومَ في هذَا الْمَشْهَدِ فَأُعْلِمَ كُلَّ أَبْيَضَ وَأَسْوَدَ: أَنَّ عَلِي بْنَ أَبي طالِبٍ أَخي وَ وَصِيّي وَ خَليفَتي (عَلي أُمَّتي) وَالْإِمامُ مِنْ بَعْدي، الَّذي مَحَلُّهُ مِنّي مَحَلُّ هارُونَ مِنْ مُوسي إِلاَّ أَنَّهُ لا نَبِي بَعْدي وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بَعْدَ الله وَ رَسُولِهِ

اے رسول! جو حکم تمہاری طرف علی (ع) (یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت) کے بارے میں نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور الله تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا،

اے لوگو! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں :

جبرائیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام پروردگار (کہ وہ سلام ہے ) کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب (ع)  میرے بھائی ، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں، ان کی منزلت میرے لیے ویسی ہی ہے، جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں۔

اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حکم کو  بیان کرنا کتنا اہم اور ضروری تھا اس کے بعد آپ ﷺ نے اسی خطبے میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا ۔

چوتھا نکتہ

بارہ اماموں کی امامت و ولایت اور خصوصاً امام علی علیہ السلام کی جانشینی کا رسمی طور پر اعلان کرنا

اس خطبہ کا اہم اور مرکزی حصہ جس میں آپ ﷺ نے اپنے بعد اپنی امت کو  تنہا نہیں چھوڑا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح  اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے بعد ایک جانشیں مقرر اور معین فرمایا اور ایک نظامِ ا مامت سے روشناس فرمایا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا

مَعاشِرَ النّاسِ، إِنَّ عَلِيّاً وَالطَّيِّبينَ مِنْ وُلْدي (مِنْ صُلْبِهِ) هُمُ الثِّقْلُ الْأَصْغَرُ، وَالْقُرْآنُ الثِّقْلُ الْأَكْبَرُ

اے لوگو ! علی (ع) اور ان کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے،

فَاعْلَمُوا مَعاشِرَ النّاسِ (ذالِكَ فيهِ وَافْهَموهُ وَاعْلَمُوا) أَنَّ الله قَدْ نَصَبَهُ لَكُمْ وَلِيّاً وَإِماماً فَرَضَ طاعَتَهُ عَلَي الْمُهاجِرينَ وَالْأَنْصارِ وَ عَلَي التّابِعينَ لَهُمْ بِإِحْسانٍ، وَ عَلَي الْبادي وَالْحاضِرِ، وَ عَلَي الْعَجَمِي وَالْعَرَبي، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلوكِ وَالصَّغيرِ وَالْكَبيرِ، وَ عَلَي الْأَبْيَضِ وَالأَسْوَدِ،

لوگو! جان لو (اس سلسلہ میں خبر دار رہو اس کو سمجھو اور مطلع ہو جاؤ)  کہ اللہ نے  مولا علی  ؑ کو تمہار ا ولی اور امام بنا دیا ہے اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین ، انصار اور نیکی میں ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کر دیا ہے ۔

مَعاشِرَ النّاسِ، إِنَّهُ آخِرُ مَقامٍ أَقُومُهُ في هذا الْمَشْهَدِ، فَاسْمَعوا وَ أَطيعوا وَانْقادوا لاِمْرِ (الله) رَبِّكُمْ، فَإِنَّ الله عَزَّوَجَلَّ هُوَ مَوْلاكُمْ وَإِلٰهُكُمْ، ثُمَّ مِنْ دونِهِ رَسولُهُ وَنَبِيُهُ الْمخاطِبُ لَكُمْ، ثُمَّ مِنْ بَعْدي عَلي وَلِيُّكُمْ وَ إِمامُكُمْ بِأَمْرِ الله رَبِّكُمْ، ثُمَّ الْإِمامَةُ في ذُرِّيَّتي مِنْ وُلْدِهِ إِلي يَوْمٍ تَلْقَوْنَ الله وَرَسولَهُ

اے لوگو ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو ، اور اطاعت کرو اور اپنے پرور دگار کے حکم کو تسلیم کرو، اللہ تمہارا رب ، ولی اور پرور دگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمد (ﷺ) تمہارا حاکم ہے، جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی (علیہ السلام) تمہارا ولی اور بحکم خدا تمہارا امام ہے  اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمہارے خدا و رسول سے ملاقات کرنے کے دن تک باقی رہے گی۔

مَعاشِرَ النَّاسِ، لا تَضِلُّوا عَنْهُ وَلا تَنْفِرُوا مِنْهُ، وَلا تَسْتَنْكِفُوا عَنْ وِلايَتِهِ، فَهُوَ الَّذي يَهدي إِلَي الْحَقِّ وَيَعْمَلُ بِهِ، وَيُزْهِقُ الْباطِلَ وَيَنْهي عَنْهُ، وَلا تَأْخُذُهُ فِي الله لَوْمَةُ لائِمٍ.

اے لوگو! علی (ع) سے بھٹک نہ جانا ، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے ، حق پر عمل کرنے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں ، انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں ہوتی۔

ثم قال: « ايها النَّاسُ، مَنْ اَوْلي بِكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ ؟ قالوا: الله و رَسُولُهُ. فَقالَ: اَلا من كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلي مَوْلاهُ، اللهمَّ والِ مَنْ والاهُ و عادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ.

اے لوگو ! تم پر تم سے زیادہ کون حق رکھتا ہے ؟ سب نے کہا: خدا اور اسکا رسول، پھر فرمایا: آگاہ ہو جاؤ جس جس کا میں مولا ہوں تو یہ علی ؑ  بھی اس اس کا مولا ہے، اے خدا اس سے محبت فرما جو اس سے محبت کرے اور اس سے دشمنی فرما جو اس سے دشمنی کرے اور اسکی مدد فرما جو اسکی مدد کرے اور اسکی مدد نہ فرما جو اسکی مدد نہ کرے۔

بِأَمْرِكَ يا رَبِّ أَقولُ: اَلَّلهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ عاداهُ (وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ) وَالْعَنْ مَنْ أَنْكَرَهُ وَاغْضِبْ عَلي مَنْ جَحَدَ حَقَّهُ

خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں۔ خدایا علی (ع) کے دوست کو دوست رکھ اور علی (ع) کے دشمن کو دشمن قرار دے ، جو علی (ع) کی مدد کرے، اس کی مدد کرنا اور جو علی (ع) کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرنا، ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔

پانچواں نکتہ:

 امام  مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کا ذکر

اسی خطبے میں آپ ﷺ نے آئمہ معصومین کا تذکرہ فرمایا   اپنے آخری جانشیں کے بارے میں امت کو آگاہی دی اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

أَلا إِنَّ خاتَمَ الْأَئِمَةِ مِنَّا الْقائِمَ الْمَهْدِي. أَلا إِنَّهُ الظّاهِرُ عَلَي الدِّينِ. أَلا إِنَّهُ الْمُنْتَقِمُ مِنَ الظّالِمينَ. أَلا إِنَّهُ فاتِحُ الْحُصُونِ وَهادِمُها. أَلا إِنَّهُ غالِبُ كُلِّ قَبيلَةٍ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ وَهاديها.

یاد رکھو کہ آخری امام ہمارا ہی قائم مہدی ہے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے ، وہی قلعوں کو فتح کرنے والا اور ان کو منہدم کرنے والا ہے ، وہی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کرنے والا ہے۔

اسی طرح اس خطبہ میں اور بھی قابل توجہ نکات ہیں جن کی طرف ہم صرف اشارہ کررہے ہیں جیسے رسول خدا  (ص)کے ہاتھوں پر امیر المؤمنین(ع) کا بلند ہونا، امت اسلامی کا مسئلہ امامت پر توجہ دینے پر زور،منافقوں کی کارستانیوں کی طرف اشارہ، اہل بیت علیہم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمنان، بیعت کے بارے میں بیان کرنا، حلال و حرام ،واجبات اور محرمات کا بیان اور  رسمی طور پر  باقاعدہ بیعت لینا اسی طرح اور اہم چیزیں  بیان کی گئی ہیں ۔

ان نکات اور شواہد کو   خطبے سے مختلف مقامات سے لیا گیا ہےویسے تو اس خطبہ  کا ہر ایک لفظ اہم ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اس خطبہ میں امت کے لیے تاقیام قیامت اپنے جانشین معین فرمائے اور ان ہستیوں  نے اپنا حق نہ ملنے کے باوجود امت محمدی کو راہ حق پر چلانے کی مکمل کوشش کی ۔ اور اسی خطبے میں واضح الفاظ میں اپنے بعد امام علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا  لیکن افسوس صد افسوس وہ حق حقدار کو نہیں دیا گیا جس کے نتائج آج بھی امت کے سامنے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ  ہمیں امام علی علیہ السلام کی ولایت کے ساتھ متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور چہاردہ معصوین علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اللھم صل علی محمد و آل محمد وعجل فرجہم و اھلک عدوھم