تاریخ ساز فتوی کی نویں سالگرہ کے موقع پر سماحہ السید محمد رضا السیستانی حفظہ اللہ کا بیان

آج سے نو سال پہلے 14شعبان/1435ھ) بمطابق (6/13/2014 عیسوی) کو کربلاء میں خطبہ جمعہ کے دوران مرجع اعلی آیت اللہ العظمی سید سیستانی دام ظلہ  کا جاری شدہ فتوی بیان کیا گیا ، جس میں مرجع اعلی دام ظلہ الوارف نے تمام عراقی شہریوں کو اپنے ملک، اپنی عزت اور اپنے مقدس مقامات کے دفاع کرنے کی دعوت دی۔ 
جس کے بعد عراقی جوان، بوڑھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور دہشت گردوں سے لڑے، اور ان کی حملوں کو پسپا کردیا اور انہوں نے وہ عظیم قربانیاں دیں جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
آج ہمیں ان ہیروز کو عزت اور وقار کے ساتھ یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اس عظیم معرکہ میں اپنا خون بہایا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے لہو سے اس چمن کی آبیاری کی اور خالق حقیقی کے ساتھ جا ملے اور ان غازیوں کو بھی یاد رکھنا ہے جو اس میدان میں زخمی ہوئے بالخصوص ان زخمیوں کو جو موت و حیات کی کشمکش میں ہیں یا اس جنگ  میں زندگی بھر کے لئے معذور ہو چکے ہیں۔
آج ہمیں ان کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے جو اس عظیم مشن کو جاری رکھتے ہوئے آج بھی میدان جہاد میں سینہ تان کر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی  کی دیوار کی مانند کھڑے ہیں۔ 
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہم ان شہداء کا ایک چھوٹا سا بھی حق ادا نہیں کر سکتے ہیں لیکن آپ کو جو توفیق ملی ہے کہ جب آپ عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلاء جائیں گے جو کہ اہم زیارتوں میں سے ایک ہے، تو ان شہداء کی نیابت میں بھی ایک زیارت پڑھ کراس کا ثواب ان شہداء کی روح کو ہدیہ کریں۔
 اسطرح جن لوگوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ طواف میں کچھ قدم انکی نیابت میں اٹھائیں یہ اگرچہ ایک چھوٹا عمل ہے لیکن ان کی قربانیوں کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
 ہماری دعا ہے خداوند متعال ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے اور انہیں شہداء کربلاء بالخصوص سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محشورفرمائے۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے وادیِ سلام میں ان شہدا کی اجتماعی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے جانے کی توفیق نصیب ہوئی توان شہداء کے سامنے میں نے اپنے آپ کو ایک کمزورانسان پایا۔
عین جوانی میں پھول جیسے نوجونوں نے اپنی خوشی سے اس وطن عزیزاورمقامات مقدسات کے دفاع میں لبیک کہتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس گلشن کی آبیاری کی ہے۔
میں نے ان کے قبروں پر کتبوں کو پڑھا ،ان میں سے کچھ حوزہ کے طالب علم تھے، کوئی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے، اور تیسرا گروہ عام لوگوں کا تھا ۔
 اسی طرح ہرطبقے کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ 
میں نے ان شہداء کے عجیب اور متاثر کن واقعات سنے ہیں۔
 ایک شہید کی والد نے مجھے کہا کہ اس کا بیٹا ابھی یونیورسٹی سے ماسٹر مکمل کرکے فارغ ہوا تھا اور انہوں نے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے  شادی کے لئے الگ گھر تیار کیا۔
 تمام ضروریات کو پورا کیا اور ایک رشتہ دار کی بیٹی سے منگنی طے کی اور شادی سے کچھ دن پہلے فتوی مبارکہ صادر ہوا تو اس نے شادی سے انکار کیا اور میدان جہاد میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔
 میں نے اس کو کافی سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا اور کہا یہ موقع بار بار نہیں ملتا  اور میں اپنے آپ کو  جہاد سے منہ پھیرنے والوں میں سے نہیں دیکھ سکتا ۔
 میں نے ان دہشتگروں کا مقابلہ کرنا ہے میں نے کہا یہ جہاد کفائی ہے باقی لوگ جائیں گے تو اس نے کہا کسی اوروں کے شہید ہونے سے مجھے ثواب تھوڑی ملے گا ۔
وہ جہاد کے لئے نکل پڑا اور میدان میں شہید ہوا اور بغیر غسل و کفن کے اسے اسی کپڑوں میں اس کو دفن کیا گیا۔
جبکہ اس کے والد نے اس کو کہا کہ ہم جہاد بالمال کرتے ہیں اور مالی معاونت سے جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔ جسطر ح جہاد بنفس ہوتا ہے اسطرح جہاد بالمال بھی ہوتا ہے۔
تو اس نے کہا کہ جہاد بنفس کا جو لطف ہے وہ جہاد بالمال میں کہاں ہے اور وہ جہاد پر گیا اور شہید ہوگیا۔
ایک اورمجاہد جوان،جو شمالی محاذوں پر واجب کفائی پرعمل کررہا تھا اور اپنی چھٹی پر اپنے خاندان کے پاس واپس نہیں آیا، بلکہ رضاکارانہ طور پر مغربی محاذوں پر چلا گیا اور وہ وہیں شہید ہو گیا۔
 جبکہ اس کے پیچھے بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح ہزاروں جوان گئے اور شہید ہوگئے۔ 
اللہ تعالی ان تمام شہدا کی مغفرت فرمائے  اور ان پر اللہ رحمتیں نازل فرمائے۔
منگل - تیرہ جون - 2023 عیسوی۔
24 ذوالقعدہ - 1444 ہجری