ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کے مقصد سے عتبہ حسینہ موصل میں تحقیقی سیشنز انعقاد کر رہا ہے

موصل تلعفر  اور الحمدانیہ یونیورسٹیوں کے تعاون سے صوبہ نینوی  میں عتبہ حسینیہ کے زیر اہتمام ثقافتی ہفتہ کے دوران تحقیقی سیشن منعقد ہوئے جن کا مقصد ایک پرامن معاشرے کی تعمیر اور تمام فرقوں کے ساتھ ملکر رہنا تھا۔
 تیاری کمیٹی کے رکن شیخ خلیل علاوی نے انٹرنیشنل میڈیا سنٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ  صوبہ موصل ،  ثقافتی ہفتہ کی سرگرمیوں کی میزبانی کررہا ہے تاکہ موصل یونیورسٹی کے علوم اسلامی کی فیکلٹی کا ہال تحقیقی سیشنز کا مرکز بن جائے۔ان تحقیقی سیشنز میں  محققین کے ایک گروپ نے حصہ لیا اور ان کی تحقیقات ان بنیادوں اور اصولوں کے متعلق تھیں کہ جن پر اس ہفتہ ثقافت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔   انہوں نے مزید کہا سیشنز میں ایسی تحقیقات اور افکار شامل تھیں جو اس محور کے متعلق تھیں۔
 انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ ایک باشعور اور متحد معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کرنا ہے اوران  نقاط میں سے ایک اہم ترین نقطہ کہ جس کے متعلق تحقیق پیش کی گئی  وہ یہ تھا کہ محبت کے جذبے کو پھیلانا اور تقسیم اور فرقہ واریت کو مسترد کرنا ہے۔اس کے علاوہ شعور  اور ثقافت کو بڑے پیمانے پر پھیلانا ہے۔
 اپنی جانب  سے، تلعفر یونیورسٹی کے چانسلر کی معاون پروفیسر ڈاکٹر ھدی جمیلی نے کہا آج موصل یونیورسٹی میں منعقدہ تحقیقی سیشن میں ، میں اس  تحقیقی عنوان کے ساتھ شریک ہوئی ہوں کہ دہشت گرد گروہوں کے وجود کی تشریح  نیوٹروفک تھیوری کی  رو سے داعش کو بطور نمونہ بناتے ہوئے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق  ان تیز رفتار واقعات کی طرف کہ جن کا قوم سامنا کر رہی ہے، تصورات اور مفاہیم میں تغییر اور خلط آمیز تحریروں کی طرف توجہ مرکوز کراتی ہے کہ جنکی وجہ سے نوجوانوں کی کثیر تعداد تکفیریت اور دہشت گرد تنظیموں کے چنگل میں پھنس  گئی ہے۔
 جمیلی کا خیال ہے کہ نوجوانوں کو شعور دینے کی ہماری خواہش کو دیکھتے ہوئے، ہم مغربی اسکالرز کے نقطہ نظر سے بہت سے سماجی مظاہر کو بیان کریں گے کہ جنہوں نے عالمگیریت کی فکر پر توجہ مرکوز کی اور کس طرح تیسری دنیا کے ممالک کے تصورات ، مغربی ممالک اور دنیا پر مسلط ممالک جیسے امریکہ وغیرہ ہے، کے منصوبوں سے تبدیل کرنا ممکن ہے۔
 جمیلی  نے اس بات پر زور دیا کہ بہت سے ممالک سوشل میڈیا کے ذریعے اور عظیم ثقافتی کشادگی کے ذریعے نوجوانوں کے خیالات اور تصورات کو تبدیل کر رہے ہیں۔
 جمیلی نے اشارہ کیا کہ قوموں کی ثقافتیں تیزی سے زوال پذیر نہیں ہوتیں کیونکہ یہ ثقافتیں بہت عمیق تصورات ہوتے ہیں جبکہ آجکل کی جدید ٹیکنالوجی اور جدید  میڈیا ٹول کی موجودگی کی وجہ سے ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے اپنے قدیم و عریق تصورات سے الگ ہو کر الحاد ، سیکولر اور دیگر  تصورات کی طرف جانا شروع کر دیا ہے۔ 
 موصل یونیورسٹی کی علوم اسلامی فیکلٹی کے ڈین کے معاون ڈاکٹر ثابت مہدی جنابی نے کہا ہم نے موصل یونیورسٹی میں عتبہ حسینیہ کی طرف سے ثقافتی ہفتہ میں شرکت کی ہے اور  میں اپنی تحقیق کے ساتھ شریک ہوا ہوں کہ جسکا عنوان ہے، اچھی شہریت اور اس کے معاشرے کی ہم آہنگی پر اثرات۔
  انہوں نے بیان کیا کہ اس شرکت کا مقصد عراقی معاشرے  میں ہم آہنگی اور پر امن زندگی کی حمایت کرنا ہے۔
اور یہ  دو بنیادی جڑوں پر مبنی ہے ایک  وطن اور دوسرا شہری۔  اور قانون ہی وہ چیز ہے جو اس شہریت پر حکومت کرتا ہے تاکہ فرد انتہا پسندی  تشدد اور پسماندگی سے دور ہو کر ، ایک فعال فرد ہو جائے ۔
 جنابی نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جدید عراقی آئین میں اس میدان میں شاندار ترامیم شامل کی گئیں ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان کا اطلاق معاشرے کی خدمت کے لیے مؤثر طریقے سے کیا جائے گا یہاں تک کہ ہم عراق میں غیر اقلیت تک پہنچ جائیں بلکہ  قدیم تہذیب پر مشتمل اس عظیم ملک میں سب کے حقوق اور فرائض یکساں ہو جائیں۔