فرانس میں مسلمانوں کی تاریخ اور قومی شناخت کا مسئلہ

پوری دنیا میں اس وقت اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے،فرانس سمیت یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں،جس سے اسلام دشمن طاقتیں خوفزدہ ہیں اوراسی کا نتیجہ ہے کہ آئے دن اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری کی کوششیں کی جاتی ہیں،

فرانس مغربی یورپ کا ایک خود مختار ملک ہے،جون 2018 ء کے سروے کے مطابق فرانس کی مجموعی آبادی 6کروڑ 71لاکھ 86ہزار 6سو اڑتیس لوگوں پر مشتمل ہے،فرانس ایک نیم وحدانی جمہوریہ ہے،جسکا دارالحکومت پیرس ہے،یہ فرانس کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا اہم ترین ثقافتی واقتصادی مرکز ہے ۔فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے،جوخام ملکی پیدوار کے لحاظ سے دنیا کی ساتویں اورمساوی قوت خرید کے لحاظ سے نویں بڑی معیشت سمجھا جاتاہے،اقوامِ متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں حق استرداد حاصل ہونے کی بنا پر اسے دنیا کی عظیم طاقت اور باضابطہ جوہری قوت کا حامل ملک سمجھا جاتاہے،

اسکے علاوہ وہ نیٹو فوج،انجمن اقتصادی تعاون وترقی،عالمی تجارتی ادارہ اور فرانسیسی بین الاقوامی تنظیم کا بھی رکن رکین ہے۔فرانس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 60لاکھ ہے جن میں سے اکثر شمالی افریقی مسلم ممالک اور مشرقِ وسطی کے مہاجرین ہین ہیں،جنوبی ایشیائی ممالک ہندوستان پاکستان،اور بنگلہ دیش وغیرہ کے مسلمان کم ہیں،مقامی آبادی سے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے،انیسویں اور بیسویں صدی میں فرانس برطانیہ کے بعد دوسری بڑی عالمی طاقت کے طورپر جانا جاتاتھا،شمالی افریقہ ممالک مراکش،تیونس،الجزائر،سینی گال اور مشرق وسطی میں لبنان اسکے مفتوحہ ممالک تھے۔

کم وبیش تین سال اس نے مصر کو بھی غلام بنائے رکھا،پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی فرانس کے زیرقبضہ ممالک سے مسلمان،فرانس منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے،لیکن خاص طور پر 1950 ء کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں نے فرانس کی طرف ہجرت کی،1962 ء میں الجزائر کو آزادی ملی،وہاں کے جن باشندوں نے مجاہدین آزادی کے خلاف فرانسیسی فوج کاساتھ دیاتھا،آزادی کے بعد انھیں فرانس میں پناہ دی گئی،جنکی تعداد تقریباً 90ہزار تھی،فرانس کی معاشی وصنعتی ترقی بھی بعد کے سالوں میں ہنرمند مسلمانوں کی ہجرت کا سبب بنی اورجنگ زدہ مسلم ممالک کے باشندے امن اور پناہ کی تلاش میں وہاں منتقل ہوتے رہے،جسکا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں کم و بیش 35لاکھ عرب افریقی مہاجر مسلم  اورانکی اولاد ہیں ڈھائی ہزار سے زائد وہاں مساجد ہیں،جن میں سے دوسو کے قریب پیرس میں ہیں۔

یورپی ممالک میں فرانس مسلم آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ فرانس میں انتہاء پسندی کی روک تھام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سخت پابندیوں اور کڑی نگرانی کیلئے قانون لاگو کیا گیا ہے ۔ فرانس کے مسلمان مسلسل نشانے پر ہیں اور اسلام کی مقبولیت سے فرانس کی موجودہ حکومت خوفزدہ ہے۔

فرانس میں تیس لاکھ سے زیادہ مسلمان فرانسیسی قومیت رکھتے ہیں اور قانونی طور پر تمام فرانسیسیوں کی طرح  مکمل حقوق ان کا حق ہے۔   فرانس میں مسلمان وزیر، مشیر اور سینیٹ کے ارکان بھی  ہیں، حالانکہ تعداد میں کم ہے۔

چیلنجز

-اندرونی

انتہا پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے افراد اور اداروں کو الگ کرنا، اور انہیں معاشرے سے الگ کرنا، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اس گروہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اسلام امن، محبت اور رواداری کو فروغ دیتا ہے۔

مسلم انجمنوں اور گروہوں کے درمیان اختلاف

مسلم بچوں کو ٹھوس بنیادوں پر اسلامی  تعلیم دینا۔

موجودہ اسلامی قبرستان میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے قبرستان کا مسئلہ

فرانس میں غیر قانونی طور پر مقیم مسلمانوں کی شادی کا مسئلہ ہے۔

بیرونی

اسلام اور مسلمانوں کی میڈیا میں منفی تصویر کشی

عربوں ، مسلمانوں اور بالخصوص نیشنل فرنٹ کے خلاف انتہائی دشمنی

سکولوں میں مسلم طلباء کو حجاب پہننے سے روکنا۔

فرانس پہنچنے والے غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کے لیے سخت ترین سزاؤں کا قیام

اسلامی عبادات کی ادائیگی میں مشکلات

فرانس اور دنیا میں اسلام کا دعویٰ کرنے والی دہشت گرد تحریکوں کی وجہ سے فرانسیسی رائے عامہ کا مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنا

تقاضے

اسلامی سکولوں کی تعمیر جو سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہیں

بڑے شہروں میں اسلامی قبرستانوں کا قیام۔

اسلامی اکثریتی علاقوں میں حلال خوراک کے مسائل کو حل کرنا۔

اسلامی ثقافت کو پھیلانا اور امن و انصاف اور رواداری پر مبنی مذہبی بیداری کو فروغ دینا۔

اسلامی تشخص کا تحفظ۔

اسلامی تنظیموں کے درمیان تنازعات کا حل۔

مسلم کمیونٹی کے درمیان اختلافات کو حل کرنا۔

کیمپ لگانا اور سیمینارز، کانفرنسز اور اسلامی تہواروں کا انعقاد