حضرت سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا اور فلسفہ اسلام

تحریر:ڈاکٹر سید وقار حیدر نقوی 

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ( الناس نیام اذا ماتوا انتبھوا)
یعنی لوگ خواب غفلت میں سو رہےہیں جب وہ مرتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں
سويا هواانسان اپنی ذمے داریوں سے غافل ہو تا ھے اسکو اپنے  نفع یا نقصان کا اندازہ نہیں ہوتا. وہ اس بات سے بھی بے خبر ھوتا ھے کہ وہ کد ھر ھے یا اسکو کس طرف لے جایا جا رہا ہے امیر کائنات علیہ السلام کے مطابق لوگوں کی اکثریت خوابگی کی حالت میں  مبتلا ہیں اس لئے کہ یہ لوگ اپنی ذمےداریاں سے تغافل  برت رہے ہیں۔

کوئی دولت جمع کرنے کی دوڑ میں سب سے آ گے نکل جانے کی فکر میں ھے اور کوئی چاہتا ھے کہ شھرت میں اسکا ثانی کوئی نہ ہو٬ کسی کو اس کائنات ساری راحتیں محبوب کی باہوں میں نظر آتی ہیں کچھ لوگ علمی ترقی کو انسان کی زندگی کا سب بڑا کمال قرار دیتے ہیں غرضیکہ اکثر لوگ اس کائنات میں معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی اصل ذمے داریوں سے تغافل کا شکار ہیں۔
انسان کو اس کے اصل مقصد کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اور اسکو خواب غفلت سے جگانے کی خاطر کسی ھمدرد ٬کسی مہربان کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے اور خدا وند کریم نے  ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں اپنا کوئی نہ کوئی نمائندہ ضرور بھیجا ہے جو انسانوں کو بیدار کرنے اور اپنے فرائض اور اپنی منزل کی جانب متوجہ ہونے کی تلقین کرے۔

کبھی کبھار انسان دولت وشھرت اور جاہ وجلال کی نیند اور نشے کے علاوہ سطحی دینداری کی مستی کا شکار بھی ہو جاتا ہے یعنی وہ نماز روزہ اور دیگر چند مذھبی امور کی انجام دہی کو ہی کمال سمجھ لیتا ہے اور روح دین سے بیگانہ ہو جاتا ہے وہ اس سطحی دین پر عمل کے خمار سےنکل ہی نہیں پاتا اور بالآخر بدبختی اسکا مقدر بن جاتی ہے اور اس بدمستی  میں مبتلا لوگ صرف خود کو  گزندنہیں پہنچاتے بلکہ دین کا نقصان بھی کرتے ہیں ۔

ایسے چند لوگوں کا ہجوم آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکلوتی بیٹی حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کا مخاطب اسوقت بنا جب اس مخدرہ عصمت وطہارت نے اپنے بابا کی مسند پر کسی اجنبی کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔یہ سب لوگ ظاھری طور پر نام نہاد مسلمان اور پابند صوم و صلوٰۃ تو تھے
لیکن انکی نیند کا عالم یہ تھا کہ اس پاک طینت اور  سراپا تقدس خاتون کو اپنے گھر سے نکلا پڑا اور شمع نبوت کے پروانوں کو جھنجھوڑ نا پڑا کہ شاید یہ لوگ جاگ جائیں اور حق کو سمجھ جائیں  اور  اپنے فرائض کو عملی جامہ پہنائیں۔

اس پاکیزہ بی بی سلام اللہ علیہا نے اہل دربار کے سامنے جہاں علم و حکمت کے کئی عظیم باب کھولے وہاں  منجملہ روح دین کو سمجھنے کی دعوت دی چنانچہ خطبہ دیتے ہوئے حضرت زھراء سلام اللہ علیہا ایک مقام پر ارشاد فرماتی ہیں کہ (وجعل الإيمان تطہیر ا لکم من الشر ک)یعنی اللہ تعالیٰ ایمان کو اس لیے قرار دیا کہ تمہیں شرک کی نجاست سے پاک فرما دے .خالص ایمان یعنی صرف خدا پر یقین ٬یعنی خدا پر بھروسہ٬یعنی اپنی تمام تر خواہشات کو بارگاہ رہی میں سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دینا اور خدا کے مقابلے میں خدا کے امور میں کسی کو فوقیت نہ دینا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان اپنی خواہش کے مطابق عمل بھی کرے اور رضائے الٰہی کو پس پشت ڈال دے اور مومن بھی رہے۔

جناب زہراء سلام اللہ علیہا کا مخاطب اجتماع اسی دو رخی کا مظہر تھا پھر اس کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ارشاد فرماتی ہیں کہ(والصلوة  تنزيھا من الكبر)یعنی اللہ تعالیٰ نے نماز کو اس لیے فرض کیا ہے کہ آپ کو مرض تکبر سے محفوظ رہے۔

روح نماز خشوع وخضوع ہے اور نماز صرف خدا وند کریم کی کبریائی کا عملی اعتراف ہے جو شخص نماز بھی پڑھے اور تکبر کا مظاہرہ بھی کرے اسکو چاھیے وہ اپنی نماز پر غور کرے کہ میں جسکو پڑھ رہا ہوں  كيایہ نماز ہے بھی سہی یا نہیں؟ پھر ارشاد فرماتی ہیں کہ (والزکاة تزکیة للنفس ونماء فی الرزق)یعنی اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو اس لیے فرض قرار دیا ہے کہ یہ نفس انسانی کو پاکیزگی عطاء کرتی ہے اور  رزق میں اضافے کا موجب بنتی ہے ایک مادی ذھن یہ تصور کرتا ہے کہ مال
سے زکوٰۃ ادا کرنے سے توانسان نقصان سے دوچار ھوتا ہے اور یہ واضح طور پررزق میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔

لیکن الہامی فکر کی ترجمان شخصیت ٬حضرت زھراء سلام اللہ علیہا ارشاد فرما رہی ہیں کہ روح زکوٰۃ کو سمجھو اسکا مقصد تمہارے لئے کسی نقصان کا سامان کرنا نہیں بلکہ یہ آپ کے لیے معنوی اور روحانی طور پر بھی مفید ہے اور مادی اور جسمانی طور پر بھی فائدہ مند۔کیونکہ جب انسان زکوٰۃ ادا کرتاہے تواس کا مال  معنوی آلودگی سےپاک ھو جاتا ھے اور جب وہ اس پاک مال سے خوراک مہیا کرتا ہے 

تو یہ پاکیزہ غذا اس کے وجود میں اسکی روحانیت کے ارتقاء کا باعث بنتی ہے ۔اگرچہ کہ جب انسان زکوٰۃ ادا کرتاہے تو ظاہر ی طور پر تو کچھ وقت کیلئے مادی کمی واقع ہو تی ہے لیکن اللہ تعالیٰ زکوٰۃ ادا کرنے والے کےرزق میں برکت ڈال دیتا ہے فروانی پیدا کر دیتا ہے یعنی ایسے اسباب مہیا فرما دیتا ہے کہ جنکی وجہ سے روزی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ (و ان اللہ علی کل شیء قدیر )

اور پھر فرمایا (والصیام تثبیتا للاخلاص) یعنی اللہ تعالیٰ نے روزوں کو اخلا ص کے ثبات کی خاطر لازم قرار دیا ہے تمام عبادات میں صرف روزہ وہ عبادت ھے کہ جس میں ریاکاری کا امکان  اصلا موجود ہی نہیں ہے یا اگر ھے بھی سہی تو دیگر  عبادات کی نسبت بہت کم ٬اس لئے کہ انسان حالت روزہ میں دیگر انسانوں سے چھپ کر کوئی بھی ایسا عمل انجام دے سکتا ہے

جو اسکے روزے کو باطل کر دے اور یوں یہ عبادت صرف اللہ اور انسان کے درمیان ایک طرح کی راز کی بات ہے عشق کی کیفیت ہے اور اخلاص کی داستان ہے ممکن ہے کہ اسی وجہ سے رسول اللہ ص نےارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ (الصو م لی وانا جزی بہ) یعنی روز ہ میرے لیے  ھے لہٰذا میں  ہی اسکی جزاءدوں گا

لیکن زیادہ مناسب ترجمہ یہ معلوم ہوتا کہ روزہ میرے لیے ھے اور میں ہی اسکی جزا کے طور پر روزدار کو دیا جاؤں گا باالفاظ دیگر روزے کی جزاء میں خود ہوں جو روزہ رکھنا ھے اسکو میں مل جاتا ہوں۔  موخرالذکر ترجمہ زیادہ مناسب اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ روزے علاوہ عبادتوں کی جزاء بھی تو اللہ تعالیٰ نے  ہی عطا فرماتا ھے تو پھر روزے کے بارے میں کیوں بطور خاص فرمایا کہ میں ہی اسکی جزاء عطا کروں گا؟
جناب زھرا سلام اللہ علیہا مالکہ علم لدنی اپنے سامنے موجود سوے ہوئے مجمع کو روح اسلام روح دین کی طرف متوجہ ہونے کی دعوت دے رہی ہیں خدا وند متعال ہم کوسب علم و عمل کی دولت سے مالامال فرمائے آمین