ماہ رمضان میں خود سازی اور تزکیہ نفس

تقویٰ سے اپنے آپ کو ملبوس کرنے اور  تزکیہ کرنے کے لیے اور فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ اور آخرت کے گھر کو یاد رکھنے کے لیے رمضان کا با برکت مہینہ الہی فرصت اور خصوصی روحانیت  والا ہے۔

 1: رمضان کا مہینہ  رحمت و برکت، الٰہی فرصتوں ،خصوصی روحانیت ، زیادہ طلب کرنے ،مافات کا تدارک کرنے، غور وفکر کرنے اور بیدار ہونے کا مہینہ ہے۔  

 2: دین اسلام میں الہٰی نقطہ نظر سے ، نفس کو سدھارنے اور اسے مادی لغزشوں سے پاک کرنے کا یہ مہینہ ہے اور تاکہ انسان  ہر سال کے ایک خاص زمانے  میں پورا دن اپنی عادی معمولات کی خواہشات کے پورا کرنے کو چھوڑ دے اور اپنے نفس کو  ان مادی امور سے اجتناب کر کے سدھارے۔

 3: فطرت کی طرف سے ان خواہشات میں بہہ جانے سے بچنا انسان کے نفس میں تبدیلی اور اس کے لیے مادی فضا سے دوری کا موجب بنتا ہے اور اس کے اندر ایک قسم کے غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ 
 جب انسان ان خواہشات کے پورا کرنے کا انکار کرتا ہے تو وہ ان خواہشات کی قربت سے پرہیز کرتا ہے  تو یہ چیز اللہ کی طرف شعور کا موجب بنتی ہے کہ جسکی طرف وہ روزے سے تقرب حاصل کرتا ہے۔ 

 4: روزہ دار کو چاہیے کہ وہ دن بھر اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے جب تک کہ وہ بیدار ہو اور نہ سو رہا ہو، اس سے اس کا نفس متاثر ہو جاتا ہے، اور یہ عزم نیند میں بھی موجود ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ (اس ماہ میں تمہاری سانس تسبیح ہے اور تمہاری نیند عبادت ہے)

 5: روزے کا مقصد یہ کہ یہ تربیت کا وسیلہ ہے جو انسان کو معنوی اور روحانی حاجات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہر قسم کی خواہشات اگرچہ وہ حلال ہی کیوں نہ ہوں ان سے دور کرتا ہے۔
اس لیے کہ کبھی یہ خواہشات اس کی ابدی زندگی کی ضروریات کے لیے حجاب بن جاتی ہیں۔
 

 6: لوگوں میں سے سب سے زیادہ عقلمند وہ ہے جو ان چیزوں کی حکمت پر دھیان دے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور جس سے اسے منع کیا گیا ہے تاکہ اس کا عمل اسے اپنی غایت تک پہنچا دے۔اکثر اوامر اور نواھی کی غایت تربیت کندہ ہے  اور زندگی کی نوعیت بھی اسی طرح ہے۔
 

 7: روزے کا حکم انسان کو تقویٰ کے لیے دیا گیا ہے جیسا کہ قرآنی آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے
 ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم  اس فضیلت والے مہینے میں تقویٰ اختیار کرنے کی کوشش کریں  کیونکہ اس ماہ میں خدا کی خاص عنایات میسر ہوتی ہیں۔

 8: تعبیر قرآنی میں اور تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ خوبیوں کا مجموعہ ہے، اور وہ خوبیاں یہ ہیں غور وفکر، فہم و فراست، توجہ ، بیداری اللہ اور دار آخرت کی یاد ، رجاء ،اعمال کے نتائج کے بارے تامل، مکارم اخلاق اور اعلی خوبیوں  سے اتصاف  ۔
پس تقوی تمام ذہنی فکری اور نفسی فضائل کو جامع ہے۔

 9: تقویٰ  اور اللہ کی خاص عنایتوں کے وسیلے سے کہ جنکی اللہ نے اس ماہ میں ضمانت لی ہے، ہمارے اوپر ضروری ہے کہ اپنے نفوس کو سنوارنے ،اپنے اعمال میں تامل کرنے اور آخرت کے لیے تیار رہنے کی کوشش کریں کیونکہ اللہ سے ملاقات قریب ہے بلکہ جو ہم گمان اور تصور کرتے ہیں اس سے بھی قریب تر ہے بلکہ موت تو ناگہانی بھی آسکتی ہے۔ 

 10: درحقیقت انسان نہیں جانتا کہ وہ اپنے رب سے کب ملے گا۔  ہم موت کے عوامل کو اپنے اندر رکھتے ہیں ۔
 ہمارے اجسام کو ایک محدود مدت کے برنامے کے لیے بنایا گیا ہے۔
 ہمارے جسموں کو ہمیشہ کے برنامے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔

 11: یہ زندگی عارضی ہے۔ درحقیقت یہ دھوکے کا ٹھکانہ ہے  اور قیامت کے دن اس فرصت میں کوتاہی کرنے والے حسرت ہی کریں گے۔

سماحة السيد  محمد باقر السیستانی حفظہ اللہ