قربانی کے فقہی احکام بمطابق فتوی ٰ سید علی سیستانی دام ظلہ

ترتیب و ترجمہ: محمد تقی ہاشمی ، متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف

آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ کے مقلدین توجہ فرمائیں کیونکہ آغا سیستانی دام ظلہ کے کچھ فتاویٰ مشہور فقہاء کے فتاویٰ سے مختلف ہیں

1 مستحب قربانی میں واجب قربانی (جو کہ حج کے دوران کی جاتی ہے)کی صفات کا ہونا ضروری نہیں ہے

پس لنگڑا ،بھینگا،جس کا کان کٹا ہو ،جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا بہت کمزور جانور  ان سب  کی قربانی ہوسکتی ہے  اگرچہ افضل و احوط یہ ہے کہ جانورموٹا اور نقائص سے سلامت ہونا چاہئے

2 جانور کے اندر عمر کے لحاظ سے درج ذیل عمروں کا ہونا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے :

الف  اونٹ یا اونٹنی: اگر پانچ سال سے کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی (پانچ سال کو پورا کرنا ضروری ہے)

ب گائے، بیل، بھینس ، بھینسا اور بکرا یا بکری اگر دو سال سے کم ہوں تو ان کی قربانی نہیں ہو سکتی (دو سال کا پورا کرنا ضروری ہے )

ج بھیڑ یا دنبہ اگر سات ماہ سے کم کی ہوتو اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی  (سات ماہ کاپورا کرنا ضروری ہے)

عمر حساب کرنے کا طریقہ کار

جانور کی پیدائش سے لیکر مہینے اور سال کو دیکھا جائے گا ،چاہئے وہ قمری ہو۔ اس عمر کے حساب کو چھوڑ کر فقط دانتوں وغیرہ کو دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ یہی عمر کا حساب کرنا ہے

3 جس حیوان کو انسان خود پالے اس کی قربانی کرنا مکروہ ہے اور اپنے پالے ہوئے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا ایک الگ مکروہ ہے

4 جانور کی قربانی میں شراکت جائز ہے خصوصا اس صورت میں کہ جب جانور کا ملنا مشکل ہو یا اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں۔

یہ شراکت چھوٹے جانور جیسے بکرا اور دنبہ میں بھی ہو سکتی ہے اور شریک ہونے والی افراد کہ تعداد بھی معین نہیں ہے۔

5 قربانی کا افضل ترین وقت 10 ذی الحج عید کے دن سورج کے طلوع ہونے کے بعد جب عید کی نماز پڑھنے جتنا وقت گزر جائے تو قربانی کرنے کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی ظہر کی نماز تک رہتا ہے۔

نماز فجر کا وقت ہو جائے تو قربانی ہو جاتی ہے لیکن نماز فجر کے وقت سے پہلے یعنی سحری کے ٹائم قربانی نہیں ہو سکتی

قربانی کا وقت تین دن تک کا رہتا ہے جبکہ منی میں چار دن تک

دوسرے اور تیسرے دن کی راتوں میں احتیاط واجب کی بناء پر قربانی کرنا درست نہیں ہے یعنی روشن دن میں قربانی کی جائے گی

6  جس کی طرف سے قربانی ہو گی اس کی طرف سے عقیقہ بھی ادا ہو جائے گا ، لیکن جس قربانی میں شراکت ہو گی اس قربانی سے عقیقہ ادا نہیں ہو گا۔

اسی طرح عید الاضحی کے دن اگر عقیقہ کیا جائے اور جانور میں قربانی والی شرائط بھی موجود ہوں تو وہ عقیقہ قربانی سے بھی کفایت کرے گا یعنی ایک ہی وقت میں عقیقہ اور قربانی دونوں ہو جائیں گے۔

نوٹ یاد رہے کہ عقیقہ میں اشتراک نہیں ہوتا بلکہ ایک جانور ایک ہی بندے کی طرف سے عقیقہ ہو سکتا ہے، چاہے وہ بڑا جانور اونٹ یا گائے ہی کیوں نہ ہو۔

7 کھال کوبطور صدقہ دینا مستحب ہے اور قصائی کو بطور اجرت دینا مکروہ ہے ۔

اور یہ جائز ہے کہ کھال کو انسان اپنے لئے جائے نماز بنائے یا اس سے گھر کا سازو سامان خریدے

 8 اسٹیل کی چھری سے ذبح کرنا احتیاط واجب کی بنا پر درست نہیں ہے اور جانور حلال نہیں ہو گا

9 احوط اور افضل یہ ہے کہ  تیسرا حصہ مسلمان فقراء کو دیا جائے باقی ایک حصہ اپنے لئے اور دوسرا حصہ کسی بھی مسلمان کو دینا جائز ہے

10 مکتب اہل بیت علیہم السلام میں مستحب قربانی کرنے والا شخص اپنے ناخن اور بال قربانی سے پہلے کاٹ سکتا ہے۔

 11 اوجھری اور کلیجہ کھانا مکروہ نہیں ہے۔

12 ذبح جانور کے دو گردے ، شریانین اور دل کے left and right atrium  کا کھانا مکروہ ہے ۔

تفصیل و تاکید کےلئے آغا سیستانی دام ظلہ  کے قربانی کے بارے میں استفتاآت ان کی ویب سائیٹ sistani.com پر ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں یا پھر توضیح جامع فارسی جلد2 ص539 دیکھ سکتے ہیں