فتوی دفاع وطن جس نے دنیا کا چہرہ بدل دیا اور عراقیوں کو متحد کر دیا

(14/شعبان/1435ھ) بمطابق (6/13/2014 عیسوی) کو کربلاء میں مرجع اعلی دام ظلہ الوارف  کے نمائندہ شیخ عبد المہدی الکربلائی نے خطبہ جمعہ کے دوران مرجع عالی آیت اللہ العظمی سید سیستانی دام ظلہ  کا  جاری شدہ فتوی بیان کیا  جس میں مرجع اعلی دام ظلہ الوارف نے تمام عراقی شہریوں کو اپنے ملک اور اپنی عزت اور اپنے مقدس مقامات کے دفاع کرنے کی دعوت دی۔

  شیخ کربلائی نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک سے جمعہ کے دوسرے خطبہ میں یہ کہا:

 عراق اور اس کی عوام ایک بڑے چیلنج اور بڑے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں اور دہشت گردوں کا مقصد صرف نینویٰ اور صلاح الدین جیسے کچھ صوبوں  پر قبضہ کرنا نہیں ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمام صوبوں پر قبضہ کریں گے اور بالخصوص بغداد کربلاء اور نجف اشرف کو نشانہ بنائیں گے۔  
یہ تمام عراقیوں کو تمام مناطق میں نشانہ بنائیں گے ۔ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا  سب کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری کسی ایک گروہ یا جماعت کے ساتھ ساتھ خاص نہیں ہے۔ 

 کربلائی نے تاکید کی: چیلنج اگرچہ عظیم ہے لیکن عراقی عوام جو اپنی ہمت اور جرأت کے لیے مشہور ہیں اور مشکل حالات میں قومی اور شرعی ذمہ داری  کو نبھانے ہیں۔عراقی عوام ان چیلنجوں اور خطرات سے نمٹنے کے لیے زیادہ مضبوط ہیں۔

 کربلائی نے مزید کہا: جن شہریوں سے ہم نے ایسے حالات میں صبر، ہمت اور استقامت کو جانا ہے، ان میں سے کسی کے دل میں خوف اور مایوسی پھیلانا جائز نہیں ہے، بلکہ ان میں ترغیب پیدا ہونی چاہیے کہ ہمیں اپنے ملک اور اپنے مقدسات کے تحفظ کے لیے مزید کچھ دینا ہے۔

 کربلائی نے سیاسی قائدین سے خاص طور پر اس مشکل دور میں آپسی اختلاف اور دشمنی ترک کرنے کا مطالبہ کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ ایک موقف پر متحد ہو جائیں اور مسلح افواج کی حمایت اور مدد کریں، تاکہ یہ عراقی فوج کے بیٹوں کی ثابت قدمی کے لیے ایک اضافی قوت ثابت ہو۔  انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سیاسی رہنما  ایک عظیم تاریخی، قومی اور بڑی شرعی ذمہ داری کا سامنا کر رہے ہیں۔

 کربلائی نے مزید کہا: مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی اداروں میں ہمارے بیٹوں کا دفاع ایک مقدس دفاع ہے اور اس بات کی تصدیق اس وقت ہوتی ہے جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان ظالم دہشت گردوں کا نقطہ نظر ایک ظالمانہ نقطہ نظر ہے جو اسلام کی روح سے دور ہے۔ ان دہشت گردوں کا نقطہ نظر  امن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے سے روکتا ہے اور یہ عراق اور دوسرے ممالک میں لوگوں پر اپنے اثر و رسوخ اور تسلط کو بڑھانے کے لئے تشدد، خونریزی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کو بھڑکانے پر انحصار کرتا ہے۔ 

 کربلائی نے مسلح افواج کے بیٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: عراق کے مقدسات اور اسکی  وحدت ،شہریوں کے امن کے لئے، مقدسات کو بے حدمتی سے بچانے کے لیے اور اس مظلوم ملک اور اس کی مجروح عوام سے شر کو دور کرنے کے لیے اپنے ارادوں اور دفاع کو اپنا نصب العین قرار دیں۔ 

 اس کے بعد کربلائی نے کہا: ایسے وقت میں جب مرجعیت علیا آپ کی حمایت اور نصرت کر رہی  ہے اور  آپ کو ہمت، بہادری، استقامت اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی تاکید کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ جو بھی اپنے ملک  اس کی عوام اور ان کے ناموس کے دفاع کے لیے اپنے آپ کو قربان کرئے تو  انشاء اللہ وہ شہید ہوگا۔

 انہوں نے مزید کہا: ضرورت اس بات کی ہے کہ باپ اپنے بیٹے، ماں اپنے بیٹے اور بیوی اپنے شوہر سے اس ملک اور اس کے شہریوں کی حرمت کے دفاع میں ثابت قدم رہنے کی تاکید کرے۔  انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: اس وقت عراق اور اس کے عوام کو درپیش خطرات کی نوعیت اس وطن، اس کے عوام اور اس کے شہریوں کی عزت کے دفاع کی متقاضی ہے۔ شہریوں پر یہ دفاع واجب کفائی ہے یعنی جو اس جہاد کے لیے کافی ہیں کہ ان کے جہاد کرنے سے غرض جہاد محقق ہوجائے اور وہ غرض یہ ہے کہ عراق ،اس کی عوام اور مقدسات کا دفاع ہو تو یہ واجب دوسروں سے ساقط ہو جاتا ہے۔ 

 اس کے بعد انہوں نے کہا: اس لیے جو شہری اپنے ملک، اپنے لوگوں اور اپنے مقدسات کے دفاع میں ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردوں سے لڑنے کے قابل ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ رضاکارانہ طور پر سیکورٹی فورسز میں شامل ہوں۔

  مرجع اعلی دام ظلہ الوارف کے نمائندہ نے اپنی تقریر کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ: بہت سے افسروں اور سپاہیوں نے دفاع، استقامت اور قربانیوں میں بہت اچھا کام کیا ہے، متعلقہ حکام پر لازم ہے کہ ان کو خصوصی اعزاز و تکریم سے نوازیں تاکہ وہ تعریف و توصیف اور اپنے استحقاق کو پائیں اور ان کے اور دوسروں کے کاندھوں پر جو ملکی ذمہ داری ہے اس کو ادا کرنے میں یہ تکریم رغبت کا باعث بنے۔

 اس فتوے نے فوری طور پر دسیوں ہزار رضاکاروں کو جوش دلایا  جسکی وجہ سے شیعہ اور سنی قبائل، عیسائیوں اور ایزیدیوں نے سکیورٹی فورسز میں شمولیت اختیار کی اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک سائے میں جمع ہو گئے جن کو بعد میں حشد شعبی کا نام دیا گیا۔
 یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرجعیت علیا کے فتوے پر فوجی اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 30 لاکھ عراقیوں نے لبیک کہا جن میں  14 سال کی عمروں کے بچوں سے لے کر 60 سالہ بوڑھے شامل تھے۔   اس طرح اس فتوے نے عراق  کی مسلحہ فوج کی سرگرمیوں کو پھر سے زندہ کر دیا۔ عراقی مسلح افواج، اور جنگجوؤں کے درمیان خون کی آمیزش ہوئی اور نظریاتی مذہبی قیادت، فوجی ہیروز کے کردار، اور عراقی عوام کی الفت کے سبب کامیابی اور فتح حاصل ہوئی۔  

 مزید برآں مرجعیت دینیہ کا مبارک فتوی جنگ کے پیغام سے زیادہ امن کا پیغام تھا، کیونکہ یہ ایک فاسق اور مجرم گروہ کے خلاف تھا اور اس نےعوام کو نشانہ نہیں بنایا تھا، بلکہ بے گھر ہونے والوں کو ان کے شہروں میں آباد کرنے کے لیے کام کیا  جہاں سے وہ بے گھر کر دیے گئے تھے اور تمام مذاہب اور مسالک کے افراد کی عبادت گاہوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا  بغیر کسی مذہب، نسل یا فرقے کے ۔
اسی کو تمام سرکاری اور غیر سرکاری ایجنسیاں کرنے میں ناکام رہیں۔

ابراہیم العوینی

ابو علی