جناب ِزینب سلام اللہ علیہا کی حیات مبارکہ پر طائرانہ نظر

شیخ محمد علی غازی

دنیا میں صنفِ نازک عورت کو کمزور اور ناتواں سمجھا جاتا ہے لیکن تاریخِ بشریت میں کچھ بعض خواتین کا کردار اس فرضی نظریے  کے بالکل برعکس دکھائی دیتا ہے انہی خواتین میں سے ایک عظیم خاتون جس کی زندگی تمام انسانوں کےلئے نمونہ عمل ہے اس کانام جناب زینب ؑ  بنت علی ابن ابی طالبؑ ہے ۔

آپ ؑ والد اور والدہ کی نسبت سے وہ خوش نصیب ہستی ہیں کہ دنیا میں ایسے ماں باپ بے مثال اور بے نظیر ہوتے ہیں اور جناب عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ ؑ کی ماں باپ کائنات کے عظیم ماں باپ ہیں کیونکہ آپ ؑ کے بابا حضرت امیر المؤمنین ؑ علی ابن ابی طالب ؑ ہیں جن کے فضائل گننے والے گننے بیٹھ جائیں تو شمار نہیں کر پائیں گے اور ماں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  بنت رسول اللہ ص ہیں جن کی عظمت کےلئے یہی کافی ہے کہ آپ علیہا السلام کی رضا کائنات کے عظیم رہبر و رہنما خاتم النبیین ص کی رضا ہے اور آپ علیہا السلام کی ناراضگی رسول اللہ ص کی ناراضگی ہے ۔

حسب و نسب کی بلندی کے ساتھ ساتھ جناب زینب ؑ کی زندگی تمام انسانوں کےلئےبہترین نمونہ عمل ہے خصوصاً خواتین کےلئے ۔

اس حقیقت کے بعد ہم  اپنے اس مختصر مقالے میں جناب زینب ؑ کے صبر کے بارے میں لکھنے کی کوشش کریں گے کیونکہ تاریخِ اسلام میں سن 61 ہجری کے بعد جب صبر کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو فوراً ہر کلمہ گو اور ہر تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں جناب زینب ؑ کا نام آتا ہے ۔

تعلیماتِ قرآن اور تعلیماتِ سنت رسول اللہ ﷺ میں صبر  اخلاقی اصولوں میں سے ایک اہم اصل ہے اور مصیبتوں اور بلاؤں میں ثابت قدمی  دکھانا اور ان مصائب کا خوش اسلوبی کے ساتھ سامنا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے،جناب ِ زینب کبریٰ  خاندانِ نبوت و امامت میں پرورش پانے والی عظیم ہستی ہے لہذا آپ ؑ نے اپنے بچپن سے لیکر آخری عمر تک صبر و استقامت میں ایسا مثالی کردار پیش کیا کہ آپ ؑ کو صبر کا پہاڑ اور صبر کی ملکہ جیسے القابات سے نوازا گیا ۔

جناب زینب ؑ کی وحی الٰہی کے مرکز میں آنکھ کھلتی ہے  اور آپ ؑ کو بچپن میں ہی اپنے جد نامدار رسول خدا ﷺ جیسی عظیم ہستی کا سایہ رحمت تربیت گاہ کے طور پر میسر ہوتا ہے ۔

امیر المؤمنین نفس رسول امام المتقین ؑ جیسے باپ کی شفقت ِ پدری  نصیب ہوتی ہے اور جناب سیدہ کونین فاطمہ زہراء علیہا السلام جیسی ماں کی پاکیزہ گود ملتی ہے یوں ایسے گھرانے میں آپ ؑ کی پرورش ہوتی ہے اور زندگی کو انہی قوانین اور انسانی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے گزارتی ہیں اور سیکھتی ہیں ۔

سن 61ہجری  کو جناب امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور  دین مبین اسلام کو بچانے  کےلئے عراق کا رخ کیا اس وقت آپ نے اپنے خاندان اور باوفا اصحاب کے ساتھ  اپنی مخدرات ِ عصمت خواتین کو بھی ساتھ عراق لے جانے کا فیصلہ کیا اور انہیں مخدرات ِ عصمت خواتین میں جناب عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ  کانام سر فہرست ملتا ہے

جناب زینب کبریٰ نے اپنے ماں جایا بھائی امام حسین ؑ کے ساتھ مدینہ منورہ سے ہجرت کی اور کربلا کا رخ کیا جہاں پہنچ کر جو عظیم قربانی پیش کی وہ تاریخ بشرمیں لازوال قربانی ہے ۔

جب دس محرم الحرام سن 61 ہجری کا سورج طلوع ہوا تو امام حسین ؑ اور  یزیدی لشکر کے درمیان صلح کی کوششیں ختم ہوگئیں  اور جنگ یقینی ہوگئی اسی وقت امام ؑ کے اصحاب و انصار نے اپنی جانوں کو آپ ؑ پر فدا کیا اور اصحاب کے بعد اہل بیت ؑ کی باری آئی تو بعض مؤرخین کے مطابق سب سے پہلے جناب علی اکبر بن حسین ؑ نے درجہ شہادت کو حاصل کیا اس کے بعد جناب عون و محمد  جو کہ جناب زینب کبریٰ کے فرزند تھے شہید ہوئے ، اسی طرح جناب ابو الفضل العباس کی  شہادت ہوئی ۔ ان تمام غمناک شہادتوں پر جناب زینب کبریٰ نے صبر جمیل فرمایا لیکن جب امام حسین ؑ میدان کارزار  میں جانے کی تیاری کی تو آپ  علیہا السلام کےلئے  اپنے آپ پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا اور آپ ؑ نے گریہ و زاری کرنا شروع کر دیا اور اپنے ماں جائے حسین ؑ سے لپٹ کر آہ و زاری کرنے لگیں اس وقت امام حسین ؑ نے آپ ؑ کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے میری بہن کہیں شیطان آپ ؑ کے حلم کو چھین نہ لے ، آپ صبر سے کام لیں ، پھر امام ؑ نے آپ کو تسلی دی اور  جزع فزع اور گریبان چاک کرنے سے منع فرمایا ، یوں جناب زینب کبری کو امام نے آنے والی عظیم ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا اور اس عظیم مصیبت پر اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر صبر کی تلقین فرمائی ۔

جناب زینب کبریٰ نے واقعا اپنے بابا علی ؑ اور بھائی حسین ؑ کی ان نصیحتوں پر عمل کرنا شروع کیا اور کربلا میں حسین ؑ کے بعد حسین ؑ بن گئیں اور عباس کی جگہ علمداری سنبھال لی یہاں تک کہ نواسہ رسول ﷺ  ابو عبد اللہ الحسینؑ کو چند گز کے فاصلے پر شہید ہوتے دیکھتی رہیں ، مگر آپ ؑ نے اس عظیم مصیبت  پر چٹان بن کر صبر کیا ۔

یوں عصرِ عاشور نواسہ رسول خدا ﷺ کو شہید کر کے زینب کبریٰ کے دل کو قیامت تک مغموم اور محزون کیا گیا۔ لیکن زینب ِ کبریٰ پر ابھی امتحان باقی تھا۔