روزي کمانے کے حوالے سے اسلام کا موقف

مولانا محمد تقی ہاشمی

دین اسلام نے روزی کمانے سے متعلق چند قیود و حدود مقرر فرمائے ہیں جن کی رعایت کرنے سے انسان کی روزی میں برکت اور انسانی معاشرے میں خوشحالی آتی ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اشیاء خورد و نوش میں ظاہری صفائی و نفاست کا خاص خیال رکھا جانے لگا ہے لیکن باطنی خرابیوں کی طرف آج بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے۔ دولت جمع کرنے کو اپنی زندگی کا بنیادی مقصد سمجھتے ہیں اسی منفی ذہنیت اور سوچ کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں امیر و غریب کے درمیان کا فاصلہ روز افزوں بڑھتا ہی جارہا ہے جو جرائم کی شرح اور فتنہ و فسادکے واقعات میں اضافہ کی بنیادی وجہ ہے۔ تو دوسری طرف دین اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات ہیں جو اپنے پیروکاروں کو نہ صرف حلال و حرام میں تمیز کرنا سکھاتی ہیں بلکہ حلال ذرائع سے رزق کمانے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہیں جسے پاکیزہ رزق کہا جاتا ہے

قرآن مجيد  ميں اللہ تعاليٰ نے ايسے مؤمنين کي  تعريف فرمائي ہے کہ جو دنيا ميں بھي اچھا چاہتے ہيں اورآخرت ميں بھي اچھا چاہتے ہيں ، ارشاد قدرت ہوتا ہے:

وَ مِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا ءَاتِنَا فىِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فىِ الاَْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ أُوْلَئكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُواْ وَ اللَّهُ سَرِيعُ الحْسَاب ( بقرہ آيت 201)

اور ان ميں سے کچھ صاحبان ايمان ايسے ہيں کہ جو کہتے ہيں اے ہمارے پالنے والے ہميں دنيا ميں بھي اچھا عطا کر اور آخرت ميں بھي اچھا دے اور ہميں آگ کے عذاب سے بچا ، يہي وہ لوگ ہيں کہ جو اپنے کئے کا نصيب پاتے ہيں اور اللہ جلدي حساب کرنے والا ہے ۔

اس آيت کي تفسير ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے  امام صادق عليہ السلام سے ايک روايت تحرير فرمائي ہے:

جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً قَالَ رِضْوَانُ اللَّهِ وَ الْجَنَّةُ فِي الْآخِرَةِ وَ السَّعَةُ فِي الرِّزْقِ وَ الْمَعَاشِ وَ حُسْنُ الْخُلُقِ فِي الدُّنْيَا.(معاني الأخبار، النص، ص: 175)

جميل بن صالح امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ عليہ السلام نے اللہ عزوجل کے کلام (رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً) کے بارے فرمايا:

آخرت ميں حسنہ اللہ کا راضي ہونا اور جنت ہے اور دنيا ميں حسنہ  معيشت اور اچھا اخلاق ہے ۔

پس مذکورہ آيت اور اس کي تفسير سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ اسلام ميں دنيا کے اندر اچھي معيشت کا ہونا بري چيز نہيں ہے بلکہ اچھي چيز ہے  جيسا کہ سورہ نجم کي آيت 48 ميں ہے: وَ أَنَّهُ هُوَ أَغْنىَ‏ وَ أَقْنىَ‏ ( سورہ نجم  آيت 48) اور اسي نے مالدار بنايا ہے اور سرمايہ عطا کيا ہے۔

اس آيت کي تفسير ميں علي ابن ابراہيم القمي رحمہ اللہ مولا امير المؤمنين عليہ السلام سے ايک روايت تحريرفرماتے ہيں:

قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع‏ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ أَنَّهُ هُوَ أَغْنى‏ وَ أَقْنى‏- قَالَ أَغْنَى كُلَّ إِنْسَانٍ بِمَعِيشَتِهِ وَ أَرْضَاهُ بِكَسْبِ يَدِهِ. تفسير القمي ؛ ج‏2 ؛ ص339

امير المؤمنين عليہ السلام سے اللہ کے اس کلام (وَ أَنَّهُ هُوَ أَغْنى‏ وَ أَقْنى‏) کے فرمايا: اللہ نے ہر انسان کو اس کي معيشت سے مال دار بنايا ہے اور اس کو اس کي ہاتھ کي کمائي کے سبب اطمئنان عطا فرماتا ہے ۔

رزق و روزي کمانے کي فضيلت:

انسان کےلئے کمانا اور رزق جمع کرنا اس وقت فضيلت رکھتا ہے کہ جب اس کا مقصد دين اسلام کي خدمت اور اللہ تعاليٰ کي خوشنودي حاصل کرنا ہو۔

جيسا کہ شيخ حرعاملي رح اپني مشھور کتاب الوسائل ميں ايک روايت لکھتے ہيں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي‏ الْخُبْزِ وَ لَا تُفَرِّقْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُ فَلَوْ لَا الْخُبْزُ مَا صَلَّيْنَا وَ لَا صُمْنَا وَ لَا أَدَّيْنَا فَرَائِضَ رَبِّنَا. ( وسائل الشيعة، ج‏17، ص: 31)

رسول خدا ﷺ نے فرمايا: اے اللہ ہمارے لئے روٹي ميں برکت عطا فرما اور روٹي اور ہمارے درميان جدائي نہ فرمانا کيونکہ اگر يہ روٹي نہ ہوتي تو ہم نماز نہ پڑھ سکتے اور نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ ہي اپنے رب کے فرائض کو پورا کر سکتے۔

قارئين محترم! آپ نے اس روايت کو ملاحظہ فرمايا کہ کس طرح رسول خدا ص روٹي کے بارے ميں دعا مانگ رہے ہيں اور فرما رہے ہيں کہ اے اللہ روٹي اور ہمارے درميان جدائي نہ ڈالنا اور پھر اس کي خوبصورت علت بھي بيان فرما دي کہ يہ روٹي دنيا کے مقصد کي خاطر نہيں ہے بلکہ اللہ کي اطاعت اور اس کے فرائض کو پورا کرنے کےلئے ہميں طاقت ديتي ہے۔

پس يہ ايک وسيلہ ہے اللہ کي اطاعت کرنے کا اور ہم جانتے ہيں کہ جب تک ہمارے جسم ميں طاقت نہ ہو ہم اللہ کي عبادت نہيں کر سکتے يا اللہ کي مخلوق کي خدمت نہيں کر سکتے يا عزاداري بپا نہيں کر سکتے ، پس پہلے ضروري ہے کہ انسان نيک کام کرنے اور اللہ کے فرائض کو پورا کرنے کےلئے جسم کو طاقت اور صحت پہنچائے اور طاقت و صحت رزق و روٹي اور روزي کے بغير ممکن نہيں ہے۔

اسي وجہ سے امام صادق عليہ السلام نے اپنے صحابي سے فرمايا: قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع لَا تَدَعْ طَلَبَ الرِّزْقِ مِنْ حِلِّهِ فَإِنَّهُ عَوْنٌ لَكَ عَلَى دِينِكَ وَ اعْقِلْ رَاحِلَتَكَ وَ تَوَكَّلْ . )الأمالي (للمفيد)، النص، ص 173

کہ تم کبھي بھي حلال طريقے سے رزق کمانے کو ترک نہ کرنا کيونکہ يہي رزق تمہارے دين پر تمہارا مدد گار ہے اور اپني سواري کو باندھو او ر اللہ پر بھروسہ رکھو۔

دنيا دار کون ہوتا ہے؟ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع وَ اللَّهِ إِنَّا لَنَطْلُبُ الدُّنْيَا وَ نُحِبُّ أَنْ نُؤْتَاهَا  فَقَالَ تُحِبُّ أَنْ تَصْنَعَ بِهَا مَا ذَا قَالَ أَعُودُ بِهَا عَلَى نَفْسِي وَ عِيَالِي وَ أَصِلُ بِهَا وَ أَتَصَدَّقُ بِهَا وَ أَحُجُّ وَ أَعْتَمِرُ.     ( وسائل الشيعة، ج‏17، ص: 34)

عبد اللہ بن ابي يعفور نقل کرتا ہے کہ ايک بندے نے امام صادق عليہ السلام سے کہا: کہ اللہ کي قسم ہم تو دنيا کے طلبگار لوگ ہيں اور اس بات کو پسند کرتے ہيں کہ دنيا ہميں ملے ، تو امام عليہ السلام نے اس سے پوچھا: کہ تم اس دنيا سے کيا کرنا پسند کرتے ہو؟

تو اس نے جواب ديا کہ ميں اس کو اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہوں اور اس دنيا کے ذريعے رشتہ داروں سے صلہ رحمي کرتا ہوں اور اس سے صدقہ کرتا ہوں ، اور حج اور عمرہ کرتا ہوں ۔ تو امام عليہ السلام نے اس سے فرمايا:

فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَيْسَ هَذَا طَلَبَ الدُّنْيَا هَذَا طَلَبُ الْآخِرَةِ ( وسائل الشيعة، ج‏17، ص: 34) کہ يہ دنيا کا طلب کرنا نہيں ہے بلکہ يہ آخرت کا طلب کرنا ہے ۔

قارئين محترم!

آپ نے توجہ فرمائي کہ دنيا کمانے کا مقصد اگر اپنے اور اہل و عيال اور رشتہ داروں کي مدد کرنا، صدقہ کرنا اور حج وعمرہ کرنا بلکہ کوئي بھي نيک کام کرنا مقصد ہو تو يہ دنيا داري نہيں ہوتي بلکہ يہ دينداري ہوتي ہے۔

پس دنيا کو کمانا اس وقت برا ہے کہ جب اس کا مقصد فقط دنيا ہو ليکن اگر اس کا مقصد نيک ہو تو وہ دنيا کمانا عبادت ہے جيسا کہ موسيٰ بن بکر کہتا ہے کہ مجھ سے امام موسيٰ کاظم عليہ السلام نے فرمايا:

مَنْ طَلَبَ هَذَا الرِّزْقَ مِنْ حِلِّهِ لِيَعُودَ بِهِ عَلَى نَفْسِهِ وَ عِيَالِهِ كَانَ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الْحَدِيثَ.   ( وسائل الشيعة، ج‏17، ص: 21)

کہ جو اس اس رزق کو حلال سے کمائے تاکہ اسے اپنے اور اپنے اہل و عيال پر خرچ کرے تو وہ ايسے ہے جيسے اللہ کے راستے ميں جہاد کرنے والا ہو۔

اور اسي طرح امام محمد باقر عليہ السلام سے روايت ہے: قَالَ: مَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا اسْتِعْفَافاً  عَنِ النَّاسِ وَ سَعْياً  عَلَى أَهْلِهِ وَ تَعَطُّفاً عَلَى جَارِهِ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ- وَ وَجْهُهُ مِثْلُ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ.

جو بھي انسان دنيا کو اس وجہ سے کمائے تاکہ لوگوں سے بےنياز ہو جائے اور اپنے اہل و عيال پر آساني پيدا کرے اور اپنے پڑوسي پر مہرباني کر سکے تو قيامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حال ميں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودويں کے چاند کي طرح چمک رہا ہو گا۔

پس اگر انسان دنيا کو کمانے کي خواہش رکھتا ہو اور اس کا مقصد اہل و عيال اور پڑوسيوں پر مہرباني کرنا ہو تو يہ دنيا کا طلب کرنا عبادت ہوتا ہے جيسا کہ امام محمد باقر عليہ السلام رسول خدا ﷺ کي اس حديث کو بيان فرماتے ہيں:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ الْعِبَادَةُ سَبْعُونَ جُزْءاً أَفْضَلُهَا طَلَبُ الْحَلَالِ. )  الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏5 ؛ ص78)

رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: عبادت کے ستر حصے ہوتے ہيں اور سب سے افضل حصہ حلال کمانا ہے ۔

اسي وجہ سے ايک اور روايت ميں ہے کہ عمرو بن جُمَيع کہتا ہے کہ ميں نے امام صادق عليہ السلام کو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

ٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ لَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يُحِبُّ جَمْعَ الْمَالِ مِنْ حَلَالٍ يَكُفُّ بِهِ وَجْهَهُ وَ يَقْضِي بِهِ دَيْنَهُ وَ يَصِلُ بِهِ رَحِمَهُ.

امام صادق عليہ السلام فرمايا: اس بندے ميں کوئي اچھائي نہيں ہے کہ جو حلال کے مال کو جمع کرنے کو پسند نہيں کرتا تاکہ اس سے وہ اپني آبرو کي حفاظت کرے ، اپنے قرض کو اتارے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمي کرے ۔

يعني اگر اس کے مال کے جمع کرنے کا مقصد نيک ہو اور اپنے آپ کو لوگوں سے بے نياز کر کے ، اپنا قرضہ اتارنا اور رشتہ داروں کي مدد کرنا ہو تو ايسا مال جمع کرنے والا اچھائي اور خير پر ہے ليکن جس کا مقصد فقط خود کي ذات ہو اور فقط اپني خاطر ہي مال جمع کرے تو وہ خير پر نہيں ہے ۔

نہ کمانے والے کي مذمت: رزق نہ کمانے والي کي دعا قبول نہيں ہوتي:

روايت ہےکہ:عَنْ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع رَجُلٌ قَالَ لَأَقْعُدَنَّ فِي بَيْتِي وَ لَأُصَلِّيَنَّ وَ لَأَصُومَنَّ وَ لَأَعْبُدَنَّ رَبِّي فَأَمَّا رِزْقِي فَسَيَأْتِينِي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع- هَذَا أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ لَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ.  الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏5 ؛ ص77)

عمر بن يزيد کہتا ہے کہ ميں نے امام صادق عليہ السلام سے عرض کياکہ: ايک بندہ کہتا ہے کہ ميں اپنے گھر ميں بيٹھا رہوں گا اور ميں نمازيں پڑھوں گا ، روزے رکھوں گا اور اپنے رب کي عبادت ميں مصروف رہوں گا اور ميرا رزق مجھ تک آجائے گا ۔تو امام عليہ السلام نے فرمايا:

يہ بندہ ان تين لوگوں ميں سے ہے کہ جن کي دعا قبول نہيں ہوتي ۔

بالکل اسي طرح کي ايک دوسري روايت بھي ہے کہ جس ميں معلي بن خنيس اپنے والد سے نقل کرتا ہے کہ ايک دن امام صادق عليہ السلام نے ايک بندے کے بارے ميں پوچھا تو ميں بھي اس وقت وہاں موجود تھا تو کسي نے بتايا:

فَقِيلَ أَصَابَتْهُ الْحَاجَةُ اس کو مال کي ضرورت ہے ۔ تو آپ عليہ السلام نے پوچھا: قَالَ فَمَا يَصْنَعُ الْيَوْمَ تو آج کے دن وہ کيا کرے گا؟

 قِيلَ فِي الْبَيْتِ يَعْبُدُ رَبَّهُ جواب ديا گيا کہ وہ گھر ميں بيٹھ کر اپنے رب کي عبادت کرے گا۔ تو امام عليہ السلام نے پوچھا: قَالَ فَمِنْ أَيْنَ قُوتُهُ

اس کي روزانہ کي خوارک کہاں سے آتي ہے؟ قِيلَ مِنْ عِنْدِ بَعْضِ إِخْوَانِهِ

جواب ديا گيا کہ اس کے بعض بھائيوں کي طرف سے ۔ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع-وَ اللَّهِ لَلَّذِي يَقُوتُهُ أَشَدُّ عِبَادَةً مِنْهُ.  وسائل الشيعة، ج‏17، ص: 26

اللہ کي قسم جو اسے کھانا اور خوارک پہنچاتے ہيں وہ اس سے زيادہ اللہ کي عبادت کرنے والے ہيں ۔

قارئين محترم!

آپ نے ملاحظہ فرمايا کہ جو بندہ گھر ميں بيٹھ کر خالص عبادت ميں مصروف رہتا ہے اور خود نہيں کماتا امام عليہ السلام نے اس کي مذمت فرمائي ہے ، حالانکہ وہ اللہ کي عبادت ميں مشغول ہے ليکن اس کے باوجود اسکي مذمت فرمائي اور يہاں تک فرما ديا کہ اللہ اس کي دعا تک قبول نہيں کرے گا۔

تو قارئين محترم ہم غور کريں کہ جو بندہ گھر ميں عبادت کر رہا تھا اور کما نہيں رہا تھا امام اس سے راضي نہيں ہيں تو جو بندہ گھر ميں سارا دن فارغ رہتا ہو اور فضول گھومتا پھرتا ہو اور گھرو والوں کےلئے کماتا نہ ہو تو کيا امام عليہ السلام اسے پسند فرمائيں گے؟!

اسي وجہ سے امام عليہ السلام نے اپنے ايک صحابي کو فرمايا تھا:

قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ إِنْ ظَنَنْتَ أَوْ بَلَغَكَ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ كَائِنٌ فِي غَدٍ فَلَا تَدَعَنَّ طَلَبَ الرِّزْقِ وَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَكُونَ كَلًّا فَافْعَلْ الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏5 ؛ ص79

اگر تمہيں يہ ظن ہو يا تجھ يا تم تک يہ خبر پہنچے کہ کل کا رزق موجود ہے تو پھر بھي تم رزق کمانے کو نہ چھوڑنا اور جتنا ہو سکے کوشش کرو کہ دوسروں پر بوجھ نہ بنو۔

اور يہي وجہ ہے کہ ہمارے ہر امام نے اپنے ہاتھ سے کمانے کو عبادت کہا ہے اور وہ خود بھي اس عبادت ميں مشغول رہے ، ابو بصير نقل کرتا ہے کہ :عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ کہ ميں نے امام صادق عليہ السلام کو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے :

کہ آپ عليہ السلام نے فرمايا: إِنِّي لَأَعْمَلُ فِي بَعْضِ ضِيَاعِي حَتَّى أَعْرَقَ وَ إِنَّ لِي مَنْ يَكْفِينِي لِيَعْلَمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَنِّي أَطْلُبُ الرِّزْقَ الْحَلَالَ.  وسائل الشيعة ؛ ج‏17 ؛ ص39

بيشک ميں آج بھي اپني بعض زمينوں ميں خود کام کرتا ہوں يہاں تک کہ پسينے ميں ڈوب جاتا ہوں جبکہ ميرے لئے اتنا کچھ موجود ہے کہ جو ميرے لئے کافي ہے ، ليکن ميں اس وجہ سے کام کرتا ہوں تاکہ اللہ عزوجل کو معلوم پڑ جائے ميں ميں رزق حلال کو کمانے والا ہوں ۔

پس قارئين کرام ! آپ نے غور فرمايا کہ چھٹے امام فرما رہے ہيں کہ ميرے پاس سب کچھ ہے ليکن پھر بھي ميں کام کرتا ہوں اور اتنا سخت کام کرتا ہوں کہ پورا جسم پسينے ميں شرابور ہو جاتا ہے اور اس کا فقط ايک ہي مقصد ہے کہ اللہ کي نگاہ ميں ميں حلال رزق کمانے والا شمار ہو جاؤں چونکہ امام عليہ السلام جانتے تھے کہ حلال رزق کمانا اللہ کي راہ ميں جہاد کرنا ہے اور ايک عظيم عبادت ہے لہذا وہ اس عبادت سے محروم نہيں رہنا چاہتے ۔

حلال رزق کمانے کےلئے مشقت اٹھانا اللہ تعاليٰ کو بہت پسند ہے ، امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں کہ :

كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَخْرُجُ فِي الْهَاجِرَةِ فِي الْحَاجَةِ قَدْ كَفَاهَا يُرِيدُ أَنْ يَرَاهُ اللَّهُ يُتْعِبُ نَفْسَهُ فِي طَلَبِ الْحَلَالِ.  وسائل الشيعة ؛ ج‏17 ؛ ص23

امير المؤمنين عليہ السلام گرمي کي دوپہر ميں اپني ايسي ضرورت کي خاطر نکل پڑتے کہ جو ان کےلئے کافي تھي اور وہ يہ چاہتے تھے کہ اللہ انہيں اس حال ميں ديکھے کہ وہ خود کو حلال کمانے کي خاطر مشقت ميں ڈال رہے ہيں ۔

علامہ محمد تقي مجلسي عليہ الرحمہ لکھتےہيں اس حديث کي شرح ميں لکھتے ہيں:

«في الحاجة قد كفيها» أي في حاجة كان له عليه السلام من يكفيها و هو لا يتعب نفسه أو كانوا يقولون له عليه السلام: نحن نفعل ذلك و لا تتعب

(روضة المتقين (ط - القديمة) ؛ ج‏6 ؛ ص431)

ايسي حاجت جو ان کےلئے کافي تھي يعني ايک ضرورت کو جس کو پورا کرنے کےلئے امام عليہ السلام کے علاوہ بہت سارے ديگر افراد موجود ہوتے تھے اور امام کو اس کےلئے خود مشقت کرنے کي ضرورت نہيں ہوتي تھي يا وہ امام عليہ السلام سے کہتے تھے کہ ہم يہ کام کر ديتے ہيں آپ زحمت نہ فرمائيں ۔

ليکن اس کے باوجود گرمي کي دوپہر کي سخت گرمي ميں امير المؤمنين عليہ السلام حلال کمانے کےلئے نکل جاتے کيونکہ وہ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ اللہ انہيں حلال کماتا ہوا ديکھے۔