رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم کا اخلاق حسنہ قرآن مجید کی روشنی میں

شیخ شہباز حسین مہرانی

کائنات میں سب سے افضل ترین ھستی آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات بابرکت ہے ، جسے خالق کائنات نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف صفات سے یاد کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت للعالمین کے ساتھ خلق عظیم کے مالک تھے،
بس جو شخص چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں اور آخرت میں کامیاب اور کامران اور کمال کی منزل تک پہنچ جائے تو اسے چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پہلو اور جھت سے کمال کی اعلیٰ منزل پر فائز تھے چاہے وہ اخلاق فردی ہو یا اجتماعی وغیرہ ۔
ارشاد رب العزت ہے کہ : لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ۔
ترجمہ : بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورہ احزاب آیت 21)
مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ : فَتَأَسَّ بِنَبِيِّكَ الاََْطْيَبِ الاََْطْهَرِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ فَإِنَّ فِيهِ أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّى، وَعَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّى وَأَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ الْمُتَأَسِّي بِنَبِيِّهِ،
تم اپنے پاک و پاکیزہ نبی کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات کی ذات اتباع کرنے والوں کے لیے ڈھارس ہے ، ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے . (نھج البلاغہ خطبہ 160 )

ہم یہاں پر چند آیات مبارکہ کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔ 
ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ :لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ.
ترجمہ : بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔ ( سورہ توبہ آیت 128 )
اس آیت کریمہ میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین عظیم صفات کا ذکر ہو رہا ہے ۔
پہلی صفت : تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے ۔ (عزیز علیہ ما عنتم ) یعنی وہ صرف تمہاری تکلیف سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اس تکلیف سے علیحدہ نہیں رہ سکتا ۔وہ تمہارے رنج و غم سے رنجیدہ ہوتا ہے ۔ وہ ہمیشہ تمہاری ھدایت کے لیے کوشاں ہوتا ہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صفت : یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری بھلائی کے نھایت حریص ہیں ۔ (حریص علیکم ) ۔
حریص کا لغت میں معنی ہے کہ : کسی چیز سے شدید لگاؤ رکھنا : آیت میں کوئی چیز معین نہیں ہے اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ بھلائی کا جو بھی معنی اور مفہوم ہو چاہے ھدایت ہو یا سعادت ، خوشبختی ہو یا کوئی اور چیز ہو اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواہاں تھے۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی صفت کو بیان فرمایا : وہ مومنین کے لیے رؤف اور رحیم ہے ( بالمومنين رؤف رحيم )۔
رؤف اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک ہے اور قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ اس کا ذکر ہوا ہے «وَ يُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَ اللّٰهُ رَؤُفٌ بِالْعِبٰادِ» آل عمران: ۳۰. «إِنَّ اللّٰهَ بِالنّٰاسِ لَرَؤُفٌ رَحِيمٌ» بقره: ۱۴۳
اور ایک دفعہ یھی صفت رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی اسی مذکورہ آیت میں بیان ہوئی ہے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے اخلاق حسنہ کے مالک تھے ۔
اور اسی طرح اس آیت میں آخری صفت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحیم ہے ، رحیم الله تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں دو سو ستائیس مرتبہ ہوا ہے ، ایک سو تیرہ مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں اور ایک سو چودہ مرتبہ آیات کریمہ میں ۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کی بھترین تفسیر یہ ہے کہ رءوف فرمانبرداروں کے لیے مخصوص محبت و لطف کی طرف اشارہ ہے جبکہ رحیم گنھگاروں کے لیے رحمت کی طرف اشارہ ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ پر رحیم تھے اور انھیں اس صفت سے متصف کیا ، ارشاد رب العزت ہے کہ : مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ۔۔۔۔
ترجمہ : محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، 
رحماء رحیم کی جمع ہے ، اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے والوں کی صفات کو بیان کیا گیا ہے ان صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ آپس میں مھربان تھے۔

دوسری آیت : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم مزاج تھے ، ارش

اد خداوندی ہے کہ : 
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ
۔ترجمہ : (اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ا

ن کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اورت معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(سورہ آل عمران آیت 159)
اس آیت میں رسول اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بھت بڑی اخلاقی خوبی کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم الله تعالیٰ کے لطف و کرم سے نرم مزاج تھے ، اور یہ خوبی لوگوں کو اپنے طرف کھینچ کر لے آتی ہے ۔ 
محدث شيخ عباس قمی ( رضوان الله تعالى عليه) نے سفینة البحار میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ایک عرب آتا ہے اور آپ کی عبا کو پکڑ کر زور سے کھینچتا ہے جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑ جاتے ہیں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرد عرب کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور ارشاد فرمایا : المال مال اللہ وانا عبدہ۔ سارا مال خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تو نے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم ان میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ 
فضحک النبیّ صلّی اللّه علیه و آله و سلم ثمّ أمر أن یحمل له علی بعیر شعیر و علی الآخر تمر،
آنحضرت یہ سنکر ہنس پڑے اور فرمایا مرد عرب کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما لاد دیا جائے۔ (سفینة البحار باب خلق)
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت مکمل طور پر مجسمہ اخلاق حسنہ ہے اور ان تمام صفات حمیدہ اور حسن اخلاق کو ایک جملہ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے :وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔ 
ترجمہ : اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کی علت اور سبب یھی اخلاق حمیدہ کی تکمیل ہے ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اِنَّمَا بُعْثِتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۷)
میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔

اور اسی طرح مختلف آیات الھی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کو بیان کیا گیا ہے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر من و عن جن ہستیوں نے عمل کیا وہ اھل بیت علیھم السلام ہیں جن کی زندگی کی کا ہر عمل آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطابق تھا ۔
امیر المومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ : فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا 
حِينَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِهِ سَلَفاً نَتَّبِعُهُ، وَقَائِداً نَطأُ عَقِبَهُ وَاللهِ لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِي هذِهِ حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَاقِعِهَا، وَلَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ: أَلاَ تَنْبِذُهَا؟ فَقُلْتُ: اغْرُبْ عَنِّي فَعِنْدَ الصَّبَاحِ يَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَى
یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں (انہی کی پیروی میں ) خدا کی قسم میں نے اپنی اس قمیض میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپ اسے اتاریں گے نہیں ؟ تو میں نے سے کہا کہ میری (نظروں سے) دور ہو کر، صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس طرح کی مدح کرتے ہیں ۔
(نھج البلاغہ خطبہ 160)
تا قیام قیامت آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم صفات حمیدہ ، اخلاق حسنہ تمام انسانوں کے لئے سر مشق ہیں ، خصوصاََ آخری نبی کی امت پر لازمی ہے کہ اپنے کام کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح انجام دیا تھا تاکہ سیرت نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہوسکیں اور دنیا اور آخرت کی بھلائی کو حاصل کرسکیں