شخصیت امام حسین ؑ (4)

 شخصیت امام حسین ؑمفکرین عالم کی نگاہ میں

 نواسہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ایک عالمی و آفاقی شخصیت ہیں۔ آپ کی شخصیت کی جامعیت و جاذبیت اور آفاقی پیغام نے دنیا کے ہر بالغ نظر اشخاص کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہر قوم و مذہب کی نابغہ روزگار شخصیات نے اپنی بساط کے مطابق آپ ؑ کی شخصیت ،آپ کی قربانی اور آپ کے پیغام کے بارے قلم اٹھانے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔ جس شخص نے آپ ؑ کی زندگی کو جس جہت سے مطالعہ کیا اس میں آپ ؑ کی ذات کو با کمال پایا۔ البتہ یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ آج تک کسی انسان نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کتابت و خطابت کے اعتبار سے امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے ۔ اگر ان سب آراء کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ لہذا یہاں ہم اختصار کے ساتھ ادیان عالم کے چند ایک مشاہیر افراد کی باتوں کو نقل کریں گے ۔

لہذا یہاں ہم اختصار کے ساتھ ادیان عالم کے چند ایک مشاہیر افراد کی باتوں کو نقل کریں گے۔ فی الحال ہمارے پیش نظر اہل سنت کے کچھ مشہور اکابرین اور مفکرین کے امام حسین ع کے بارے میں اظہار عقیدت کو بیان کرنا ہے۔
مسلمان مفکرین
جلال الدین سیوطی( وفات 911ھ
اصل نام عبد الرحمان ، لقب جلال الدین اور عرف ابن کتب تھا۔اہل سنت کے ایک مشہورمفسر، محدث،فقیہ اور مورخ تھے۔ آپ کی کثیر تصانیف ہیں، آپ کی کتب کی تعداد 500 سے زائد ہے۔تفسیر جلالین اور تفسیر درمنثور کے علاوہ قرآنیات پر الاتقان فی علوم القرآن علما ءمیں کافی مقبول ہے ۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ا ندوہناک واقعے کو اس طرح بیان کیا۔
امام حسین علیہ السلام کو روز عاشوراء قتل کیا گیا مگر اس دن کے بعد افق آسمان سرخ ہوگیا اور چھے ماہ تک ایسے محسوس ہوتا تھا کہ آسمان پر خون ہی خون ہے جو کہ قتل امام حسین علیہ السلام سے پہلے نہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیت المقدس کے جس پتھر کو اٹھا کر دیکھتے خون ظاہر ہوتا تھا
2 ابن خلدون (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء
ابن خلدون عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ،فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ ان کا اصل نام عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون المالکی تھا۔ آپ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے لکھتے ہیں
ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسینؑ نے اس کے خلاف قیام کرنے کو اپنے او پر واجب سمجھا کیونکہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے”۔( تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص)217
3 ڈاکٹرطہٰ حسین:( جامعہ قاہرہ مصر
اہل سنت کے مصنف ڈاکٹر طہ حسین بیسویں صدی کے موثر مصری ادبا اور دانشوروں میں سے ایک تھے۔ امام حسین ؑ کے قیام کے بارے ان کا کہنا تھا کہ "حسینؑ کا بیعت نہ کرنا ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرلیتے تو اپنے وجدان سے خیانت کا ارتکاب کرتےاور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔امام حسین ؑ حق کے مقابلے میں چشم پوشی کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے ۔آپ تمام امور اسلامی میں انتہائی زیرک اور مدبرانہ فکر رکھتے تھے”۔(طہ حسین، علی و بنوہ، دارالمعارف، )ص239
4 عباس محمود عقاد( بیسویں صدی کے ایک مایہ نازمصری مفکر و ادیب اور شاعر تھے
عباس محمود عقاد نے مستقلاً امام حسینؑ کی شخصیت پرکتابیں لکھی ہیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور کتاب ” ابو الشھداء الحسین ابن علی علیہما السلام "ہے۔
اپنی کتاب «ابوالشهداء، الحسین بن علیؑ» میں لکھتے ہیں ” یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگ کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں”۔ وہ مزید لکھتے ہیں،
انقلاب حسینیؑ تاریخ میں رونما ہونے والی انقلابی تحریکوں میں اپنی مثال نہیں رکھتے، چاہے اب تک انجام پانے والے دینی انقلاب ہوں یا سیاسی انقلاب۔ اس انقلاب کے بعد اموی حکومت ایک عام انسان کی عمر تک بھی قائم نہ رہ سکی، کیونکہ انقلاب حسینیؑ اور اموی حکومت کےسقوط کے دوران کم و بیش ساٹھ سال کی مدت ہے عقاد، ابوالشهداء، 1429ق)، ص207.)

5 عمر بن عبد اللہ فروخ ، (مشہور عمر فروخ):( لبنان سے تعلق رکھنے والا اہل سنت ادیب و مفکر
موجودہ دور میں مسلمانوں کے لئے قیام امام حسین ؑ کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ”ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کے دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔”( فروخ، تجدید فی المسلمین فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152
6   خواجہ معین الدین چشتی : ( ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں،
"حسین(ع)، صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے‘ بقول خواجہ معین الدین چشتیؒشاہ است حسین(ع) بادشاہ است حسین(ع) دین است حسین(ع) دین پناہ است حسین(ع) سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین(ع)۔
7  ڈاکٹر محمد طاہر القادری:( سربراہ منھاج القران پاکستان
منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہتے ہیں کہ "شہادت امام حسین (ع) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک باب ہے۔ امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے، وہی فیض امام حسین (ع) کی سیرت سے ملتا ہے۔ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ذکر امام حسین علیہ السلام کیوں ضروری ہے؟ اگر ذکر امام حسین علیہ السلام ضروری نہیں اور شہادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور ذکر اہل بیت ضروری نہیں تو پھر آقا علیہ السلام کی امت میں کسی کا ذکر بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ ذکر حسین علیہ السلام حقیقت میں خود ذکر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ شہادت امام حسین علیہ السلام حقیقت میں سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ یہ واحد ایک ایسی شہادت ہے جس کا تفصیلی ذکر خود آقا علیہ السلام نے اپنے صحابہ کرام کے سامنے فرمایا۔اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور صلحاء بندوں کا ذکر کرنا سنت الہٰیہ ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کرکے درحقیقت ہم سنت الہٰیہ پر عمل پیرا ہیں”۔( تحریک منھاج القرآن کی آفیشل ویب سائٹ)۔

(www.minhag.org