قربانی کے فقہی احکام

مومن کی پوری زندگی اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کی تگ و دو سے عبارت ہے۔ اسلام نے ان مقاصد کی تکمیل کے شرعی اصول وضع کئے تاکہ انسان بطریقِ احسن اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔ قربانی ایک عظیم الشان عمل ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک جانور قربان کر دینا ہی نہیں بلکہ نفس میں غنا، بے نیازی کی کیفیت پیدا کرنا اور بڑے سے بڑے ایثار کے لئے تیار ہونا ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اگرچہ قربانی مروج تھی لیکن اسلام نے قربانی کے جو مقاصد بیان کئے ہیں وہ حیاتِ انسانی میں ایک انقلاب بپا کر دیتے ہیں

آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ کے مقلدین توجہ فرمائیں کیونکہ آغا سیستانی دام ظلہ کے فتاویٰ کچھ فقہاء کے فتاویٰ سےمختلف ہیں

مستحب قربانی میں واجب قربانی (جو کہ حج کے دوران کی جاتی ہے)کی صفات کا ہونا ضروری نہیں ہے 1

پس لنگڑا ،بھینگا،جس کا کان کٹا ہو ،جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا بہت کمزور جانور  ان سب  کی قربانی ہوسکتی ہے  اگرچہ افضل و احوط یہ ہے کہ جانورموٹا اور نقائص سے سلامت ہونا چاہئے ۔

جانور کے اندر عمر کے لحاظ سے درج ذیل عمروں کا ہونا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے 2

الف: اونٹ یا اونٹنی: اگر پانچ سال سے کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔(پانچ سال کو پورا کرنا ضروری ہے

ب: گائے، بیل، بھینس ، بھینسا اور بکرا یا بکری : اگر دو سال سے کم ہوں تو ان کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔ (دو سال کا پورا کرنا ضروری ہے

ج: بھیڑ یا دنبہ  :اگر سات ماہ سے کم کی ہوتو اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی۔(سات ماہ کاپورا کرنا ضروری ہے

3 جس حیوان کو انسان خود پالے اس کی قربانی کرنا مکروہ ہے اور اپنے پالے ہوئے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا ایک الگ مکروہ ہے۔

4 جانور کی قربانی میں شراکت جائز ہے خصوصا اس صورت میں کہ جب جانور کا ملنا مشکل ہو یا اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں۔

 یہ شراکت چھوٹے جانور جیسے بکرا اور دنبہ میں بھی ہو سکتی ہے اور شریک ہونے والی افراد کہ تعداد بھی معین نہیں ہے۔

5 قربانی کا افضل ترین وقت 10 ذی الحج عید کے دن سورج کے طلوع ہونے کے بعد جب عید کی نماز پڑھنے جتنا وقت گزر جائے تو قربانی کرنے کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی ظہر کی نماز تک رہتا ہے۔

نماز فجر کا وقت ہو جائے تو قربانی ہو جاتی ہے لیکن نماز فجر کے وقت سے پہلے یعنی سحری کے ٹائم قربانی نہیں ہو سکتی۔

قربانی کا وقت تین دن تک کا رہتا ہے جبکہ منی میں چار دن تک۔

دوسرے اور تیسرے دن کی راتوں میں احتیاط واجب کی بناء پر قربانی کرنا درست نہیں ہے۔

6 کھال کوبطور صدقہ دینا مستحب ہے اور قصائی کو بطور اجرت دینا مکروہ ہے ۔

اور یہ جائز ہے کہ کھال کو انسان اپنے لئے جائے نماز بنائے یا اس سے گھر کا سازو سامان خریدے۔

7 اسٹیل کی چھری سے ذبح کرنا احتیاط واجب کی بنا پر درست نہیں ہے اور جانور حلال نہیں ہو گا۔

8 احوط اور افضل یہ ہے کہ تیسرا حصہ مسلمان فقراء کو دیا جائے باقی ایک حصہ اپنے لئے اور دوسرا حصہ کسی بھی مسلمان کو دینا جائز  ہے ۔

9 ذبح جانور کے دو گردے ،شریانین اور دل کے کا کھانا مکروہ ہے ۔ جبکہ اوجھری اور کلیجہ مکروہ نہیں ہے۔

تفصیل و تاکید کےلئے آغا سیستانی دام ظلہ کے قربانی کے بارے میں استفتاآت ان کی آفشل ویب سائیٹ

sistani.com

پر ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں یا پھر توضیح جامع فارسی جلد2 ص539 دیکھ سکتے ہیں