جرمنی میں نسل پرستی اور تفریق آمیز سلوک کا سلسلہ جاری

جرمنی میں تفریق آمیز سلوک کی کئی بدنما شکلیں ہیں اور یہ پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک قومی سروے سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں سیاہ فام، ایشیائی اور مسلمانوں کو روزمرہ کے معاملات میں تفریقی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سر پر اسکارف پہننے والی مسلم خواتین اور ایسے لوگ جو جرمن زبان اچھی طرح یا بالکل ہی نہیں بول پاتے ہیں، ان کے لیے توہین آمیز صورت حال یا توہین کے واقعات کاسامنا روزانہ کا معمول ہے۔ جرمنی میں تفریق آمیز سلوک کی بدنما شکلیں ہیں اور یہ پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔

یہ بات جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (ڈی ای زیڈ آئی ایم) کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے رپورٹ میں سامنے آئی ہے، جسے روا ں ہفتے برلن میں پیش کیا گیا ۔ گوکہ سروے کے نتائج نہ تو پوری طرح نئے ہیں اور نہ ہی مکمل طور حیران کن لیکن اتنے ٹھوس انداز میں یہ شاید ہی پہلے پیش کیے گئے ہیں

رپورٹ کے مطابق جرمنی میں نصف سے زیادہ (54فیصد)  سیاہ فام افراد کو کم از کم ایک بار نسل پرستی کا تجربہ ہوا ہے۔ اس گروپ میں سے تقریباً ہر پانچ میں سے ایک عورت کا کہنا تھا کہ انہیں سال میں کئی مرتبہ دھمکیاں دی جاتی ہیں یا ہراساں کیا جاتا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والی 14 فیصد مسلم خواتین اور 13فیصد ایشیائی خواتین نے بھی اسی طرح کے مسائل کا ذکر کیا

جرمنی میں نسل پرستی کے خلاف مستقل نگرانی کا نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں ڈی ای زیڈ آئی ایم کی ڈائریکٹر نائیکہ فروتن کا کہنا تھا،" تعصب اور نسل پرستی کے بارہا ہونے والے تجربات کے اثرات صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور ان سے ریاستی اداروں پر اعتماد کمزور ہونے لگتا ہے، جو جمہوریت کو کمزور کرسکتا اور خطرے میں ڈال سکتا ہے

اکتالیس فیصد سیاہ فام مردوں اور 40 فیصد مسلمان مردوں نے پولیس کے ساتھ معاملات میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کی بات کہی۔ انہیں عوامی دفاتر میں بھی نسل پرستی اور تفرقہ آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑھتا ہے  

جب ہیلتھ کیئر کی بات آتی ہے تب بھی انہیں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر سفید فام لوگوں کو ڈاکٹروں سے وقت لینے میں زیادہ دشواری ہوتی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔ سیاہ فام، مسلمان اور ایشیائی افراد کا کہنا تھا کہ علاج میں تاخیر یا ان کے ساتھ برا سلوک کیے جانے یا اکثر ڈاکٹرتبدیل کردیے جانے کے خوف سے انہوں نے علاج کرانے سے گریز کیا

وفاقی حکومت کی کمشنر برائے انٹیگریشن ریم البالی روڈووان نے خبر دار کیا کہ "رنگت یا کنیت (سرنیم) کو طبی نگہداشت کے معیار کا فیصلہ کن عنصر نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں، نرسنگ اسٹاف اور ہسپتالوں کو نسل پرستی کے خلاف تربیت دینے اور تصورات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے عملے کے حوالے سے بھی ایسے ہی مطالبات ایک عرصے سے کیے جارہے ہیں

زرائع : اعلام دولی