ڈاکٹر اسد عیاری تیونسی کا کہنا ہے کہ اللہ کربلاء سے بہت محبت کرتا ہے اس لئے اس کو مقدس بنا لیا

روضہ حسینی کے خاتم الانبیاء آڈیوٹوریم میں 35، عرب اور غیرعرب ممالک کی شرکت کے ساتھ بروز ہفتہ کو (امام حسین علیہ السلام آفاقیت اور لافانیت) کے شعار کے تحت مستشرقین پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گی ۔

 کانفرنس کے دوراں انٹرنیشنل میڈیا سنٹر نے تیونس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اسد عیاری کا انٹرویو کیا، جو اپنی  تحقیق کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوئے، جس کا عنوان تھا ،جب امام حسین علیہ السلام بولتے ہیں تو دنیا جاگتی ہے

  ڈاکٹر اسعد عیاری کون ہیں؟

اسد عیاری، تیونس یونیورسٹی کے محقق ہیں جنہوں نے تقابل مذاہب کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور تیونس براڈکاسٹنگ کارپوریشن میں میڈیا کےکام کے علاوہ، وہ دانشورانہ علمی امور سے متعلق ،تقابل ادیان اور تنقیدی مقالات کے کئی اشاعتوں کے مصنف ہیں۔

ان کی بہت سی تالیفات ہیں جیسے الصمت في النصوص ،تنوير المقدس،مقاربات في كلام الله، كتاب الدم في النصوص المقدسة،كتاب القداسة اور النجاسة رمزية الدم في النصوص الدينية

عباس : آپ امام حسین ع کے قضیہ کے متعلق،مستشرقین کے افکار سے نمٹنے کے اس طریقہ کار کو کیسے دیکھتیں ہیں جو کانفرنس میں پیش کیا گیا ؟

ڈاکٹرعیاری:استشراقی فکر ایک بنیادی مسئلہ ہے جسے پیش کرنا ضروری تھا تا کہ کانفرنس کے دنوں میں پیش کی جانے والی تحقیقات کے ذریعے واقفیت حاصل کر سکیں کہ یہ تحقیقات قابل قدر اور علمی ہیں۔

ان تحقیقات کے ذریعے، ہم نے مستشرقین فکر کے لیے سب سے نمایاں، تجزیاتی اور تنقیدی نقطہ نظر کے بارے میں سیکھا۔ مزید برآں یہ بھی سیکھا کہ مستشرقین نےقضیہ حسینہ کا کیسے اہتمام کیا ہے۔

کیونکہ جب مغرب، مشرق کے متعلق لکھتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ اس کی بیان کردہ  تصویر صاف اور واضح نہیں ہو گی اور یہ اس میں بہت ساری تحریفات کرے گا۔ اس تصویر کے خدوخال کا تعین ایک نظریاتی، سیاسی اور مذہبی پس منظر سے  ہو گا۔

پس اس فکری فضا کو بنانا ضروری ہے تاکہ ہم اندر سے استشراقی فکر کو پہچان سکیں  اور یہ جان سکیں کہ اس استشراقی فکر نے تاریخ اسلام اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کے قضیہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے۔

عباس : آپ نے مستشرقین کانفرنس میں کس حیثیت سے شرکت کی؟

ڈاکٹر عیاری: میں نے اس کانفرنس میں ایک تحقیق کے ساتھ شرکت کی تھی جس کا عنوان تھا (جب امام حسین علیہ السلام بولتے ہیں تو دنیا جاگ جاتی ہے) یہ ایک علمی تحقیق تھی جو ان علامتی اعمال کے تجزیہ و تحلیل اور نقد پر مشتمل تھی کہ جن اعمال کو، سیرت امام حسین علیہ السلام کے مختلف واقعات اور مراحل  کی تحریف میں مستشرقین استعمال کر سکتے ہیں۔

مستشرقین کی اکثر تحقیقات جہالت اور ملاوٹ سے تیار شدہ ہیں ۔

پس ضروری ہے کہ ہم ان غلط استشراقی آراء ،جہالتوں ، تحریفات اور ملاوٹوں کو پہچانیں کہ جن میں استشراقی فکر پڑ چکی ہے اوران کی تصحیح کریں۔

  عباس: ہم مستشرقین کو اپنے بارے میں حقائق  کیسے بتا سکتے ہیں؟

ڈاکٹرعیاری:یہ ایک اضافی معاملہ ہے اور خاص طور پرجب ہم عالمگیریت کے دور کی بات کر رہے ہیں، تو ہم تہذیبوں کے مکالمات کے متعلق بات کریں اور دوسروں کے ساتھ مکالمات  کریں۔ یہ بہت ضروری امر ہے اوراس کے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اختلافات کے باوجود دوسروں کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کو اپنی درست تراث بتائیں۔ پس ہم دوسروں پر لازم قرار دیں کہ جب وہ ہماری تراث واقعات اور تاریخ کو ہماری نیابت میں بیان کریں تو اسکو صحیح صورت میں اور بغیر ملاوٹ کے بیان کریں۔ یہ ذمہ داری عربی اسلامی فکر کے کندھوں پرعائد ہوتی ہے کیونکہ بہت سارے مستشرقین نے روایات  احادیث اور تاریخ کو  خالص نہیں لیا ہے ۔

بعض مستشرقین نے بیان کرنے میں امانت داری کا مظاہرہ کیا ہے جیسا کہ کارل بروکلمان وغیرہ ہیں۔

عباس: آپ حرم حسینی کی فراہم کردہ عمومی خدمات اور بالخصوص صحیح دینی اور مذہبی افکار کو پیش کرنے میں اس کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر عیاری: شہر کربلا اور عراق کا عمومی طور پر میرا یہ پہلا دورہ ہے اور میں نے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ شہر کربلا کو بہت پسند کرتا ہے کیونکہ اس نے اس میں یہ عظمت و حرمت رکھی ہے۔

 ان چند دنوں میں جو چیز میں نے دیکھی وہ یہ ہے کہ عتبہ حسینہ  فکری و علمی اور سماجی، تربیتی اور معاشی امور کو ملا کر رکھتا ہے۔

یہ صرف دینی سرگرمیوں پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ یہ ہر اس چیز پر کام کرتا ہے جو انسانی خدمت کر سکے تا کہ یہ اپنے ملک میں کریم بن جائے ۔

انٹریو عباس نجم

مترجم ابو علی