ہندوستانی میڈیا دفاع کفائی کے فتویٰ کو یاد کر رہا ہے

ہندوستانی میڈیا دفاع کفائی کے فتویٰ کو یاد کر رہا ہے
ہندوستانی صحافیوں کے وفد نے عراق اور  اس کی سلامتی میں دفاعی فتوی کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی میڈیا سنٹر کی دعوت پر 7 سال پہلے 2016 کو عراق کا دورہ کیا تھا۔ 
اس وفد میں  مصنف سمیر ارشد خاتلانی بھی شامل تھے۔
اس فتوی کی یاد کو انہوں نے ایک مضمون کے ضمن میں اعادہ کیا کہ جو My pluralist ویب سائٹ پر اس عنوان کے تحت شائع ہوا کہ (سیستانی دام ظلہ الوارف کے فتوے نے عراق میں دہشت گردی پر فتح حاصل کرنے میں کس طرح مدد کی)۔

 اس میں مصنف نے جرائم پیشہ گروہوں کے داخلے کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "پچھلی دہائی کے وسط میں، نام نہاد (داعش) نے شام کے ایک تہائی اور عراق کے 40 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا جو کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جب  جون 2014 میں موصل میں عراقی سکیورٹی فورسز ایک بڑے حملے کے پیش نظر بھاگ گئیں تو یہ گروپ قابو سے باہر نظر آیا۔ اس سے  داعش کو وسیع علاقے پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔

 انہوں نے اشارہ کیا  کہ یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ چند سالوں میں داعش کو شکست سے دوچار کیا جائے گا لیکن عراق صرف تین سالوں میں داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا حالانکہ  یہ عراق کی تاریخ نہیں تھی کیونکہ داعش کے علاوہ دوسرے دہشت گرد گروہ کہ جنہوں نے عراق کی سر زمین پر طویل مدت سے قبضہ کیا ہوا ہے ان کے خلاف عراقی سکیورٹی فورسز کو  ان کے خلاف حملوں میں اکثر طور پر کامیابی نہیں ملی تھی۔ 

  انہوں نے عراق میں اپنے تجربے  کو ذریعہ بناتے ہوئے کہا  کہ میں نے 2016 میں جب عراق کا دورہ کیا تھا تو میں نے عراق میں ہراول دستے کی لڑائی کو مشاہدہ کیا تھا۔ دوران عراق میرا سفر جنوبی شہر نجف میں  میڈیا وفد کے ایک رکن کے طور پر شروع ہوا، جہاں عراقی لڑائی کے بیج بوئے گئے، جب  آیت اللہ سید علی سیستانی دام ظلہ الوارف نے جون 2014 میں نجف میں واقع اپنے مرکزی دفتر سے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں انہوں ان  عراقیوں سے داعش کے خلاف مقاومت مطالبہ کیا جو داعش کے خلاف لڑنے کے قابل ہیں۔

 انہوں نے اپنے مضمون میں کہا کہ  فتویٰ نےہزاروں رضاکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا جنہوں نے  داعش کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فتویٰ نے قابل اعتماد سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں داعش مخالف مزاحمت کو انتہائی ضروری شرعی جواز فراہم کیا۔ جسکی بہت زیادہ ضرورت تھی۔

 انہوں نے کہا رضاکارانہ کام کے لیے سیستانی دام ظلہ الوارف کی دعوت  رضاکاروں کے ساتھ ہماری بات چیت سے اور داعش مخالف رضاکار فورس کے کیمپوں کے ہمارے دوروں سے واضح تھی۔ حشد شعبی نے موثر رضا کاروں کی بھرتی کی کوشش کی۔ 
 انہوں نے فتویٰ پر کارنیگی سنٹر کی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ نومبر 2015 میں، کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر نے نوٹ کیا کہ داعش کے خلاف عراق کی کامیابیاں زیادہ تر سیستانی کے فتوے سے منسوب ہے۔ اس سنٹر نے بغداد کے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اندازہ لگایا کہ تقریباً 80  فیصد  لوگوں نے داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے ان صوبوں سے نام لکھوائے جہاں آیت اللہ العظمی سید سیستانی دام ظلہ الوارف مسیطر تھے۔  کارنیگی کا یہ اعتراف کہ داعش کے خلاف مزاحمت میں حشد شعبی کا فیصلہ کن کردار ہے، ظاہر کرتا ہے  کہ حشد شعبی نے"طاقت کی ریاستی اجارہ داری" کو چیلنج کیا تھا اور کس طرح رضاکاروں نے رمادی  جیسے علاقوں کو دوبارہ حاصل کیا اور موصل-رقہ روڈ کاکنٹرول دوبارہ کیسے سنبھالا  جس نے داعش کے مالی وسائل کا گلا گھونٹ دیا اور اس کی تیل کی برآمدات میں رکاوٹ ڈالی جو کہ ان کی زندگی کی شریان تھی۔

  اس کے بعد مصنف  فتویٰ کے نتائج کو متعرض ہوئے اور  کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف داعش مخالف بہادروں کی بہادری کا جشن ہے۔ شہیدوں کی تصویروں کو عراق کے بڑے شہروں نجف، کربلا اور بغداد کی ضریحوں میں بازاروں میں راستوں میں عام چوکو پر پھیلا دیا گیا اور میڈیا پر داعش مخالف بہادروں کا جشن  منایا گیا۔
 بڑی  اسکرینوں نے مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے میدان جنگ کی تصاویر دکھانا شروع کر دیں۔
عراقیوں کا اس پر اصرار تھا کہ یہ ایک متحدہ معرکہ تھا جس کا نتیجہ ان کی وجود سے کامیابی کی صورت میں ملا۔

 مصنف نے تاریخ کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جدید دور میں خارجیوں سے  امام علی علیہ السلام کی جنگ کو بڑی علامتی اہمیت حاصل تھی اور انہوں نے جب امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف سر کشی کی  تو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے انہیں کچل ڈالا، جیسا کہ خوارج نے مسلمانوں کے خلاف وقتاً فوقتاً فوجی حملے شروع کر دیے، یہاں تک کہ انہوں نے علی بن ابی طالب کو 661 عیسوی میں  اپنی شکست سے پہلے شہید کر دیا، اور آٹھویں صدی میں خطرہ ہونے کی وجہ سے رک گئے۔

 اور پھر اس نے واقعہ کربلاء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ علماء نے داعش کو خارجیوں اور کربلا میں علیہ السلام کے بیٹے حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کے افراد کے قاتلوں سے تشبیہ دی۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کے افراد نے یزید کے خلاف مقاومت کی تھی جو ظالم حاکم تھا اور شیعہ ہر سال آج تک واقعہ کربلاء میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کے افراد کی شہادت محرم الحرام میں مناتے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا علماء نے داعش کے خلاف جنگ کو حقیقی اسلام کی بقا سے جوڑ دیا جس کے لیے حسین علیہ السلام نے اپنی جان دی تھی۔ اس سے داعش مخالف جہاد کو بامقصد جہاد کا ایک بڑا ہدف ملا جیسا کہ داعش کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے مجاہدین کو دکھایا گیا کہ اس سے امام  حسین علیہ السلام کی جدوجہد کے تسلسل کو مجسم بنانا ہے۔
جیساکہ مصنف عتبہ حسینہ کے متولی شرعی سے ملاقات کو بھی متعرض ہوئے اور ذکر کیا کہ کربلا میں مرجع اعلی سید سیستانی دام ظلہ الوارف کے نمائندہ شیخ عبد المہدی الکربلائی حفظہ اللہ نے ہمیں بتایا کہ عراقی کس طرح داعش کے خلاف حقیقی جہاد کر رہے تھے۔  انہوں نے سیستانی  دام ظلہ الوارف کے فتوے کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ ملک کے اندر اندھا دھند بربریت کے خلاف دفاع کے لیے جاری کیا گیا تھا۔