کربلا مظلوم کی حمایت اور امن و انصاف کی سرمدی تحریک کے موضوع پر سہ روزہ بین الادیان کانفرنس

انٹر نیشنل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ہندستان میں ’’کربلا مظلوم کی حمایت اور امن و انصاف کی سرمدی تحریک ‘‘ کے عنوان سے ادارہ تنظیم المکاتب کےزیر اہتمام تنظیم المکاتب ہال میں سہ روزہ انٹرفیتھ کانفرنس ۔

ہندوستان کے سب سے بڑے شیعہ دینی ادارہ تنظیم المکاتب نے 22، 23اور 24جولائی کو بعنوان ’’کربلا مظلوم کی حمایت اور امن و انصاف کی سرمدی تحریک‘‘ لکھنؤ میں پہلی بار سہ روزہ انٹرفیتھ کانفرنس کا انعقاد کیا گیاہے۔ جس میں مذکورہ عنوان کے ذیل میں کئی عناوین دئیے گئے ہیں جن پر پورے ملک سے مختلف مذاہب کے مذہبی رہنما اور دانشوران اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔’’ کربلا امن و انصاف کی سرمدی تحریک‘‘ کا عنوان اس لئے چنا گیا ہے کہ امن اور انصاف انسانیت اور سماج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سکون کے ہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدل و انصاف کے بغیر امن و سکون قائم نہیں رہ سکتا، یہی بنیادی وجہ ہے کہ امن اور سکون سے محبت کرنے والوں کی حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ اپنے اپنے طریقے سے امن و سکون قائم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور حالات کی پرواہ نہیں کرتے۔ نیکی پھیلانے اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس راہ میں ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں امن و انصاف قائم ہو۔حضرت محمدؐ کے نواسے امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا اور بابا امام علیؑ کی امن و انصاف کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے اسلام کے بھیس میں چھپے برائیوں کے مجسمے یزید جیسے ظالم اور دہشت گرد حاکم کے سامنے کہ جس کے سامنے سب خاموش تھے اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے جن کی تعداد صرف 72 تھی، ان کے ساتھ گھر کی خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے امن و انصاف قائم کرنے کے لئے جس وقت قیام کیا اس وقت انہیں نہ مدینہ میں پناہ ملی اور نہ ہی مکہ میں۔
مدینہ سے نکلنے سے پہلے امام حسینؑ نے اپنے پیغام میں واضح کر دیا تھا کہ وہ جنگ کے لیے نہیں بلکہ امن اور عدل و انصاف کے لئے نکل رہے ہیں۔ آپؑ نے اپنے آخری وقت میں یزیدی فوج سے پوچھا کہ تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ میرا قصور کیا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ’’آپ کے والد علی ؑ کے بغض میں‘‘ کیونکہ امام حسین ؑ کے والد حضرت علی ؑکو بھی امن و انصاف قائم کرنے کے جرم میں ایک دہشت گردانہ حملے کے ذریعہ مسجد کوفہ میں نماز صبح کی ادائیگی کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ برے لوگوں کے سامنے امن وانصاف پر قائم رہتے تھے۔امام حسینؑ اپنے نانا اور والد گرامی کے راستے پر گامزن تھے جو ان کے والد حضرت علیؑ کے دشمنوں کو پسند نہیں تھا کیونکہ یزید اور یزیدی بھی عدل و انصاف کے بدترین دشمن ہونے کے ناطے حضرت علیؑ اور امام حسینؑ کے سخت ترین دشمن تھے۔ اس کے لئے تخت خلافت پر بیٹھے ہوئے یزید نے یہ شرط رکھی کہ ہر شخص یزید کو خلیفہ سمجھ کر اس کے راستے پر چلے۔ اس شرط کو رد کرتے ہوئے امام حسینؑ نے اعلان کیا کہ ایسا کرنا ذلت کی زندگی ہے اس سے بہتر عزت کی موت ہے۔ آپ نے جو کہا تھا اسے کر دکھایا۔
کربلا کے اسی دردناک واقعے کے مختلف نکات پر روشنی ڈالنے اور معاشرے میں کسی بھی قیمت پر امن وانصاف کے قیام کی کوشش ہے یہ سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا

 آخر میں صدر ادارۂ تنظیم المکاتب حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمیم الحسن رضوی نے فرمایا کہ اہل علم و نظر نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ محترم ہیں اور ان پر غور و فکر کے بعد عمل ہونا چاہئیے ۔ لیکن کربلا کے اہم ذرائع ابلاغ عزداری، عزادار اور عزاخانہ ہیں لہذا ان کا تحفظ اور فروغ ہم سب کی بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے