حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ

حضرت زینب کبری علیہا السلام کی زندگانی کے بارے میں ہزاروں محققین اور علماء کتابیں لکھتے آرہے ہیں لیکن یہ ایک بیکران سمندر ہے جس کی انتہا کو پہنچنا ناممکن ہے۔ہم بھی آپ کی زندگانی کے چندپہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے

حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی اول ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے  مہینے میں ہجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ  میں پیدا ہوئیں اور ۱۵ رجب ۶۲ ہجری میں ۵۶ یا ۵۷ سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔

آپکی آرمگاہ کے بارے میں محققین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن معروف ترین قول دمشق ہے ،جہاں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف جگہوں سے حاضر ہوتے ہیں اور ان کے بارگاہ اقدس سے مستفیض ہوتے ہیں ۔

سید محمد بحر العلوم کہتا ہے :اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سورج کہاں غروب ہو جائے ، جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہےکہ اس سورج کی شعائیں جو روشنی بخشی ہیں اور قیامت تک غروب نہیں ہو گی ، اس کی روشنی سے دنیا کے مستفیذ ہوتے آرہے ہیں ۔ آپ  کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں "نیک منظر درخت" کے معنی میں آیا ہے اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں۔متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا   کا نام پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا؛ البتہ آپؐ نے  حضرت علی اور  حضرت  فاطمہ زہراءعلیہمالسلام کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔ جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری(س) سے مشابہت رکھتی ہے۔

خاندان پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام  میں پلنے والے تمام مرد و عورت صاحب فضیلت ہیں اور ہر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہیں ان افراد میں سے ایک زینب کبری ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام و زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں پرورش پائی ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

عالمہ و مفسرہ

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام  اور والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔ علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ حضرت زينب سلام اللہ علیہا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراءعلیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام آپ کی علمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : انت عالمہ غیر معلمہ فہمۃ غیر مفہم

عاشورا کی ظہر کے بعد جب قیام امام حسینؑ کے انتظامی معاملات امام سجادؑ اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کاندھوں پر آن پڑے تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے معاملات کو ایسے احسن انداز میں سنبھالا کہ تاریخ اسے سیرت حضرت زینب سلام اللہ علیہا میں آئیڈیل کے طور پر جانتی ہے۔

خدا محور ہونا قیام عاشورا کے دروس میں سے ایک درس ہے جسے تاریخ نے حضرت زینب (س) کے سب سے پہلے اقدامات میں سے ذکر کیا ہے۔ بی بی نے فرمایا کہ اللھم تقبل منا ھذاالقربان۔۔۔۔۔

رسول اللہؐ سے نقل ہوا ہے کہ فتنے اندھیری راتوں کے حصوں کی طرح یکے بعد دیگرے آتے ہیں لہٰذا ان حالات میں قرآن کی پناہ حاصل کرو۔ بی بی (س) نے دربار یزید میں قرآنی آیات  سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کا دفاع اور یزید کی تذلیل کا زمینہ فراہم کیا۔

تاریخ عاشورا میں کہیں بھی آپ نہیں دیکھیں گے کہ حضرت زینب (س) نے اپنے خطبات میں یزید کو حاکم، خلیفہ یا امیر جیسے القابات سے پکارا ہو بلکہ یزید کی محفل میں اسے «عدو الله و یابن طلقا» کہہ کر پکارا ہے اور اسے مخاطب کرکے فرمایا تو ہمارے ذکر کو نہیں مٹا سکتا۔

اہل کربلا کا ہدف اسلام کی بقا تھا۔ یزید کے دربار میں بی بی زینب (س) نے اپنے ہدف کی قاطعیت اور اس کے تلخ جملوں کا جواب یوں دیا، مارأیت الا جمیلا

قیام عاشورا کے دروس میں سے ایک ہے۔ در حقیقت حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اسی اصول کی بنیاد پر عاشورا کو عالمگیر بنایا۔ بی بی (س) کے ہنگامی صورت میں کیے گئے تمام فیصلے امام سجاد(ع) کی راہنمائی کے زیر سایہ تھے.