مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی کے مطابق چاند کا مسئلہ

مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی کے مطابق چاند کے مسئلہ میں انفرادی یا شاذ قسم کی گواہیاں حجت کیوں نہیں ہیں؟ تحریر: محمد تقی ہاشمی، متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف یعنی بہت سارے لوگ چاند دیکھیں مگر صرف چند ایک کو نظر آئے اور باقیوں کو نظر نہ آئے تو یہ چند ایک افراد کی گواہیاں حجت نہیں ہوں گی، چاہے یہ چند ایک کی گواہیوں مختلف شہروں سے جمع کر کے بڑی تعداد میں بن جائیں۔ مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی کچھ معتبر روایات کی وجہ سے یہ موقف رکھتے ہیں کہ چاند کے مسئلہ میں اجتماعی گواہیاں ہوں گی تو تب ان کو حجت مانا جائے گا اور اگر انفرادی گواہیاں ہیں یعنی بہت سارے ایک ہی علاقے کے لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی مگر ان میں سے فقط چند لوگوں کو چاند نظر آیا ، باقیوں کو نظر نہیں آ سکا، جبکہ باقی لوگ بھی پہلے والے لوگوں کی طرح ہیں ، ُان کی آنکھیں بھی سلامت ہیں اور وہ بھی چاند دیکھنے کا طریقہ جانتے ہیں اور سب ایک ہی جگہ پر ہیں ، سب کا موسم بھی ایک جیسا ہے ،مگر اس کے باوجود سب کو نظر نہیں آرہا اور ان میں سے فقط چند ایک کو نظر آرہا ہے تو اس صورت میں ان چند گواہیوں کو حجت نہیں مانا جائے گا چونکہ روایات ِ اہل بیت علیہم السلام میں چاندکی گواہیوں کے متعلق یہ قانون ذکر ہوا ہے کہ : جب ایک بندہ چاند دیکھے گا تو سو بندے بھی چاند دیکھیں گے اور جب سو بندے چاند دیکھیں گے اور جب سو دیکھیں گے تو ایک ہزار بندے بھی چاند دیکھیں گے۔ مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی کا یہ فتویٰ جب لوگوں کےلئے تشویش کا باعث بنا تو انہوں نے اس کے متعلق سوالات کئے اور ان سوالات میں سےایک سوال اور مرجع اعلیٰ کے جواب کا ترجمہ ہم قارئین کےلئے پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ اس موضوع کو سمجھ سکیں کہ چاند کے مسئلہ میں انفرادی گواہیوں کی حجیت کیوں ثابت نہیں ہے ۔ سوال: بعض اوقات ہم افق شہروں سے بہت سارے قابلِ اعتماد لوگوں کی انفرادی گواہیاں چاند کی رؤیت کے متعلق ملتی ہیں اور اگر ان سب انفرادی گواہیوں کو جمع کیا جائے تو گواہیوں کی بڑی تعداد بن جاتی ہے جیسے مثال کے طور پر 30 گواہیاں بن جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی ان گواہیوں کو نہیں مانتے اور مہینے کی پہلی تاریخ کے ثابت کرنے کےلئے ایسی تمام گواہیوں پر اعتماد نہیں کرتے ، تو اس کی وجہ کیا ہے؟ (یعنی سوال کرنے والے حیرت کر رہے ہیں 30 گواہیاں جمع ہوگئی تھیں، مگر پھر بھی مرجع اعلیٰ السید سیستانی دام ظلہ العالی نے ان گواہیوں کو قبول نہ کیا ، لہذا اس کی کیا وجہ ہے؟) جواب:ان گواہیوں کو نہ لینے کا مورد ایسا تھا کہ جب ہر شہر سے بہت سارے لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی تھی ،مگر ان میں سے چند ایک لوگوں نے رؤیت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ان میں سے باقی افراد بھی چاند کے مقام کی معرفت کے اعتبار سے اور بصارت کی تیزی کے لحاظ سے انہی جیسے تھے اور باقیوں کےلئے بھی موسم ایک جیسا صاف تھا اور کوئی ایسی رکاوٹ تک نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے باقی افراد چاند نہ دیکھ سکیں۔ تو ان جیسے حالات میں بعض لوگوں کی گواہیوں پر اعتماد نہیں کیا جا تا اور یہی وہ نظریہ ہے کہ جس کا استفادہ بہت ساری نصوصِ اہل بیت علیہم السلام ہوتا ہے: 1: ابو ایوب کی امام صادق علیہ السلام سے معتبر روایت: ابو ایوب کہتا ہے کہ: قُلْتُ لَهُ كَمْ يُجْزِي فِي رُؤْيَةِ الْهِلَالِ فَقَالَ میں نے اما م علیہ السلام سے پوچھا کہ چاند کی رؤیت میں کتنے لوگ کافی ہیں؟ تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا: إِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ فَرِيضَةٌ مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ فَلَا تُؤَدُّوا بِالتَّظَنِّي وَ لَيْسَ رُؤْيَةُ الْهِلَالِ أَنْ يَقُومَ عِدَّةٌ فَيَقُولَ وَاحِدٌ قَدْ رَأَيْتُهُ وَ يَقُولَ الْآخَرُونَ لَمْ نَرَهُ إِذَا رَآهُ وَاحِدٌ رَآهُ مِائَةٌ وَ إِذَا رَآهُ مِائَةٌ رَآهُ أَلْفٌ وَ لَا يُجْزِي فِي رُؤْيَةِ الْهِلَالِ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي السَّمَاءِ عِلَّةٌ أَقَلُّ مِنْ شَهَادَةِ خَمْسِينَ وَ إِذَا كَانَتْ فِي السَّمَاءِ عِلَّةٌ قُبِلَتْ شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ يَدْخُلَانِ وَ يَخْرُجَانِ مِنْ مِصْرٍ. ( تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏4، ص: 160) ماہ رمضان اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ، پس تم ظنی طریقوں سے اسے ادا نہ کرو اور اس طرح چاند کی رؤیت نہیں ہوتی کہ بہت سارے لوگ چاند دیکھنے کےلئے کھڑے ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ مجھے چاند نظر آگیا اور دوسرے کہیں کہ ہمیں نظر نہیں آیا ۔ پس جب ایک دیکھے گا تو سو 100 دیکھیں گے اور جب سو 100 دیکھیں گے تو ہزار دیکھیں گے۔ 2: محمد بن مسلم کی امام باقر علیہ السلام سے صحیح روایت: محمد بن مسلم کہتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا وَ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا وَ لَيْسَ بِالرَّأْيِ وَ لَا بِالتَّظَنِّي وَ لَكِنْ بِالرُّؤْيَةِ وَ الرُّؤْيَةُ لَيْسَ أَنْ يَقُومَ عَشَرَةٌ فَيَنْظُرُوا فَيَقُولَ وَاحِدٌ هُوَ ذَا هُوَ وَ يَنْظُرُ تِسْعَةٌ فَلَا يَرَوْنَهُ إِذَا رَآهُ وَاحِدٌ رَآهُ عَشَرَةٌ وَ أَلْف‏ ( تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏4، ص: 156) جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم چاند دیکھو تو فطر کرو اور چاند ذاتی تجزیہ اور ظنی طریقوں سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ رؤیت یعنی دیکھنے سے ثابت ہوگا اور چاند کی رؤیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دس بندے چاند دیکھنے کےلئے کھڑے ہوں پس ان میں سے ایک بندہ کہے کہ وہ چاند ہے مجھے نظر آگیا اور باقی نو9 بندے بھی دیکھیں تو ان کو نظر نہ آسکے ۔ پس جب ایک دیکھے گا تو دس اور ہزار بندے بھی دیکھیں گے۔ 3: عبد اللہ بن بکیر کی امام صادق علیہ السلام سےموثق روایت: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: صُمْ لِلرُّؤْيَةِ وَ أَفْطِرْ لِلرُّؤْيَةِ وَ لَيْسَ رُؤْيَةُ الْهِلَالِ أَنْ يَجِي‏ءَ الرَّجُلُ وَ الرَّجُلَانِ فَيَقُولَانِ رَأَيْنَا إِنَّمَا الرُّؤْيَةُ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُ رَأَيْتُ فَيَقُولَ الْقَوْمُ صَدَقْتَ. (تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏4، ص: 164) تم رؤیت سے ہی روزہ رکھو اور رؤیت سے ہی فطر کرو ، اور چاند کی رؤیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک یا دو بندے آئیں اور کہیں کہ ہم نے چاند دیکھ لیا بلکہ رؤیت یہ ہوتی ہےکہ جب ایک کہنے والا کہے کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو پھر پوری قوم کہے کہ ہاں تم صحیح کہہ رہے ہو ۔ پس ان روایات میں آپ دیکھ سکتےہیں کہ ان روایات میں کس طرح امام علیہ السلام اس بات کی تاکید فرما رہے ہیں کہ چاند دیکھنے والی جماعت میں سے ایک یا دو بندوں کے دیکھنے سے چاند کی رؤیت ثابت نہیں ہوتی اور اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ جو پہلے بیان کیا ہے کہ چاند دیکھنے والا بندہ جب باقیوں جیسا ہے تو اگر چاند افق پر ظاہر ہوتا تو سب کو نظر آجاتا ، لہذا ایسے حالات میں چاند کے دیکھنے کے دعوے حِسّ میں غلطی کی وجہ سے ہوں گے اور رؤیت ھلال ایک وہم ہوگا جیسا کہ بہت سارے واقعات میں ایسے وھم ثابت بھی ہوئے ہیں۔ (کتاب : اسئلة حول رؤية الهلال مع إجوبتها ، للسيستاني ،ص 48 تا 50)