استنبول کو فتح کرنے کے بعد پہلی مسجد جس کی بنیاد رکھی گئی ۔۔حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار اور مسجد کا واقعہ ۔۔ اس کا تاریخی اور دینی رمز

استنبول شہر کے قرن ذہبی ساحل پر صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری کے نام کی مسجد اوران کا  مزار سایہ فگن ہیں جن کا شمار شہر کی اہم ثقافتی اور دینی سیاحتی مزارات میں ہوتا ہےکیونکہ ان مقامات کو مسلمان عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
مزار اور مسجد کو ترک (ایوب سلطان)  "Eyüp Sultan Camii" کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ جگہ جس مقام پر ہے اسے حي ايوب کہا جاتا ہےجو کہ استنبول شہر کے یورپی کنارے پر واقع ہے کیونکہ یہ دونوں مزار اور مسجد مستقل عمارتیں ہیں قبر ابو ایوب انصاری اور دوسری طرف مسجد اور مصلیٰ۔
اس مقام کا لوگوں کے نزدیک بہت بڑا  احترام اور مقام ہے اور ترک اس مقام کو ایک تاریخی رمز سمجھتے ہیں  جو کہ ملکی تاریخ کے اہم مفاہیم اور واقعات پر مشتمل ہے ۔ 
حضرت ابو ایوب انصاری کا تعارف 
ابو ایوب انصاری کا اصل نام خالد تھا اور شجرہ نسب یہ ہے : خالد بن زيد بن كليب بْن ثعلبہ بن عبد بن عوف بن غنم بن مالك بْن النجار بن ثعلبہ بن عمرو بْن الخزرج الأكبر. (ابن الأثير، اسد الغابة، ج 1، ص 571.)۔
حضرت ابو ایوب انصاری نبی پاک ﷺ کے صحابی تھے اور بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے  اور آپ کو اپنے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جب آپ ﷺ  مدینہ کی طرف  ہجرت کر کے گئے اور تمام مؤرخین نے حضرت ابو ایوب انصاری کو مضيّف النبي کی صفت سے یاد کیا ہے  اور اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ آپ ﷺ ان کے گھر میں کتنا عرصہ رہے تھے اور یہ مدت سات ماہ سے زیادہ نہیں تھی (ابن هشام، السيرة النبوية، ج 2، ص 141.؛ ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 484، الاستيعاب، ج 2، ص 424)۔
ابو ایوب انصاری  نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی، وہ بدر، احد، خندق اور دیگر واقعات کے گواہوں میں سے تھےجس طرح آپ کو نبی پاک ﷺ  کا اطاعت گزاور اور وفادار سے پہچانا جاتا  ہے ۔ (ابن هشام، السيرة النبوية، ج 2، ص 100)
رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابوایوب انصاری ان گیارہ اصحاب میں سے تھے جنہوں نے امام علی علیہ السلام کی حقانیت کا دفاع کیا اسی وجہ سے بعض مؤرخین نے آپ کو امام علی علیہ السلام کے خواص میں سے قرار دیا ہے  (البرقي، رجال البرقي، صص 63، 66/ ابن الأثير، أسد الغابة، ج 5، ص 143)۔ 
خلیفہ ثالث کے قتل ہونے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری امام علی علیہ السلام کی بیعت کرنے والے اولین افراد میں سے تھے اور آپ نے امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی اور امام علی علیہ السلام کے مشہور انصار اور شیعوں میں سے تھے ۔ (اليعقوبي، تاريخ اليعقوبي، ج 2، ص 178/ المنقري، وقعة صفين، ص 366)
جنگ نہروان میں امام علی علیہ السلام نے ابو ایوب انصاری کو گھڑ سواروں پر سوار کیا اور انھیں خوارج کو نصیحت کرنے کے لیے بھیجا ، اور مؤرخین کہتے ہیں کہ جب آپ سے پوچھا گیا: جلیل القدر صحابی ہو کر کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے ہمرکاب ہو کر اہل قبلہ کے ساتھ جنگ کر رہے ہو؟ تو انھوں نے ایمانی قلب کے ساتھ جواب دیا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ بیعت لی تھی کہ تم امام علیؑ کی معیت میں ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف جنگ کرو گے۔( الإسكافي، المعيار والموازنة، ص 37.؛ الطوسي، معرفة الرجال، ج 1، صص 172 - 173.؛ ابن منظور، مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر، ج 7، ص 340.؛ الذهبي، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص410)۔
حضرت ابو ایوب انصاری نے سن 35 ہجری میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ کوفہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے حق میں گواہی دی کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث غدیر کو سنا ہے ۔( ابن الأثير، أسد الغابة،ج 5، ص 205)
جنگ نہروان کے بعد امام علی علیہ السلام نے آپ کو مدینہ کا گورنر مقرر فرمایامگر جب سنہ 40 ہجری میں معاویہ کی طرف سے "بسر بن ابی ارطاۃ" کی قیادت میں تین ہزار جنگجوؤں نے مدینہ پر حملہ کیا تو ابو ایوب انصاری مدینہ کو چھوڑ کر عراق پہنچ گئے اور امام علی علیہ السلام سے جا ملے۔ بُسر نے مدینہ پر قبضہ کرنے اور اسے مباح کرنے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کو آگ لگا دی ۔(البلاذري، انساب الأشراف، ج 2، ص 382/ الطبري، تاريخ الطبري، ج 5، ص 139/ الثقفي، الغارات، ج 2، صص 602 – 604)
ابو ایوب انصاری اپنی زندگی کے آخری ایام تک مجاہد رہے، انہوں نے قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کو آزاد کرانے کے لیے بھیجی گئی فوج میں حصہ لیا، جنگ کے دوران بیمار ہو گئے اور اس کے محاصرے کے دوران سنہ 52 ہجری میں انتقال کر گئے، اور قسطنطنیہ کی دیواریں کے قریب ہی دفن کیا گیا ۔ (ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 485.؛ ابن عساكر، التاريخ الكبير، ج 5، ص 37)
سید الخوئی رحمۃ اللہ علیہ نے احتمال دیا ہے کہ  اس لشکر میں ابو ایوب انصاری کی شرکت  امام حسن بن علی علیہ السلام کی اجازت سے تھی۔ (الخوئي، معجم رجال الحديث، ج 7، ص 24)
ابو ایوب انصاری اچھے شعراء  میں سے ایک تھے، اور ان کے بہت سے قصائد اور ابیات ہیں، خاص طور پر ان جنگوں کے بارے میں  جو انھوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف سے لڑی تھیں، ان میں سے وہ شعر بھی ہے جو وہ معاویہ بن ابی سفیان کو رد کرتے ہوئے  کہاہے  کہ 
لا توعدنا ابن حـــــــرب إننا بشر      لا نبتغي ود ذي البغضاء من أحدِ
فاسعوا جميعا بني الأحزاب كلكم       لسنا نريد ولاكم آخر الأبــــــــــــدِ
أما عـــلي فإنا لا نفــــــــــارقه    ما رقرق الآل فــــــــــي الدوية الجـــــــرد
اے حرب کے بیٹے تو ہمیں دھمکی نہ دے ہم سارے کے سارے بشر ہیں ۔ہم کسی ایک بھی بغض رکھنے والے کی محبت نہیں چاہتے ۔
تمھارے سارے گروہوں نے کوشش کی ہے ۔ہم آخر دھر تک تمھاری دوستی نہیں چاہتے ۔
لیکن علی علیہ السلام کو ہم ہرگز  نہیں چھوڑیں گے۔(المصدر: ابن أبي الحدید، شرح نهج البلاغة، ج 8، صص 44-45)
مزار کی تاریخ اور اس کی تعمیر
ترک مصنف اور مؤرخ توران قشلاقجی بتاتے ہیں کہ جس جنگ میں ابو ایوب انصاری نے شرکت کی تھی اسے آٹھ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد مسلمان مورخین  نے فتح قسطنطنیہ کو 1453 م میں لکھا  تو اس وقت سے  یہ ترکی میں ایک تاریخی رمز میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس امر کے بارے میں بہت سارے قصے بیان کیئے جاتے ہیں جو کہ حضرت ابو ایوب انصاری کے آنے اور اس کی  رغبت رکھنے کے بارے میں کہ وہ کیسے قسطنطنیہ کی فتح میں شریک ہوئے حالانکہ وہ بوڑھے اور مریض تھے اور ان واقعات میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ انھوں نے جنگجؤوں میں جذبے اور جوش کی روح کو بھر دیا اور محمد الفاتح نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا  کہ اس نے  "ابو ایوب" کے مقبرے کو معین کیا  اور درحقیقت اس نے قبر تلاش کی اور اس کے ایک طرف لکھا ہوا تھا یہ ابو ایوب انصاری کی قبر ہے  اور اس مقام پر ابو ایوب انصاری کے نام سے مسجد تعمیر کی یہ پہلی مسجد تھی جو سنہ 1458 میں  استنبول میں تعمیر کی گئی ۔ 
جیسا کہ ترک مؤرخ مرات دومان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ  ترکی میں "ابو ایوب الانصاری" کے مزار کو اسلامی ثقافت میں ایک بڑا مقام حاصل ہوا ہے، عثمانی بادشاہ مسجد میں مذہبی تقریب منعقد کرتے تھے اور بادشاہ تلوار پہنتے تھے جو اسے سونپے گئے اختیارات کی علامت ہوتی تھی اور مسجد کی تاریخ میں ذکر کیا جاتاہے کہ مسجد کے ساتھ ایک کالج تھا جس میں دور دراز سے طلبہ آتے تھے۔
استاد محمد یاسیف جو کہ وہاں کے منتظمین میں سے ایک ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مسجد کو اٹھارویں صدی کے آخر میں زلزلے کی وجہ سے نقصان پہنچا اور اس کی دوبارہ ترمیم کر کے اصل حالت میں باقی رکھا گیا اور مسجد کو صحیح زاویوں کے ساتھ باقاعدہ مربع شکل کے طور پر ڈیزائن کیا گیااور اس کی خصوصیات میں ایک بڑا گنبد ہے جس کا قطر سولہ میٹر ہے اور آٹھ گنبدوں سے گھرا ہوا ہےاورمسجد میں دو الگ الگ صحن ہیں جن میں سے ایک وضو کے لیے مختص تھا اور دوسرے صحن میں مشہور قدیم سائکیمور درخت تھا اور اس مخصوص صحن میں شاہی تقریبات منعقد ہوتی تھیں ۔
اس وقت مسجد کے ساتھ فقراء کو کھانا کھلانے کے لیے جگہ مختص ہے اور ایک ترکی حمام ہے اور یہ علاقہ ایک سیاحتی اور تجارتی مقام میں تبدیل ہو چکا ہے، اور شہر میں اس کی موجودگی بہت مذہبی اہمیت کی حامل ہےاور یہ بات ضروری ہے کہ زیارت کی ترویج کی جائے اور اس مقام پر روحانی کیفیت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اوراس بات کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ  باوجودیکہ مقامی آبادی میں شہرت ہے لیکن مسلمان سیاحوں اور زائرین میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو شہرت اور معرفت حاصل ہونی چاہیے ۔ 
 تحقیق : زینب عبد الرحیم 
مترجم : شہباز حسین مہرانی