خضر الیاس ؑ کا مقام

خضر الیاس کا مقام ۔۔ ایک دینی مقام جس کا عراق میں مختلف قبائل کے گھرانے رخ کرتے ہیں ۔
خضر کا مقام بغداد میں مشہور آثار قدیمہ میں سے ایک ہے جو مذہبی اور ثقافتی پہلو کا حامل ہے جس میں عبادتوں کو انجام دینے کے لیے ہر طرف سے اور عراق کے مختلف قبائل رخ کرتے ہیں اور عام طور پر زیارات کو آنے والے ہفتے میں ہر جمعرات کو یہاں آتے ہیں ۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ اصل میں اُس زمانے میں یہ مقام مسجد تھی یہاں تک کہ بغداد نہر دجلہ کرخ کے علائقے کی طرف ایک محلہ میں اس مسجد پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا جو خضر الیاس کے نام سے پہچانا جاتا تھا ۔
اور اسی طرح گذشتہ زمانے میں یہ مقام ایک مدرسہ تھا جسے شیخ محمد امین سویدی نے تعمیر کروایا تھا اسی وجہ سے یہ مقام مدرسہ سویدی کے نام سے مشہور تھا اور یہ زمانہ سن 1239 ہجری / 1823 عیسوی کا تھا اور یہ اس کے رہنے کی جگہ تھی اور اس میں تمام علوم عقلی اور نقلی کی تدریس کرانے کی شرط تھی اور یہ مدرسہ طالب علموں سے بھرا ہوتا تھا اور اس مدرسہ میں شیخ محمد امین مدّرس تھے اور یہ سن 1246 ہجری / 1831 عیسوی میں وفات پاگئے اور اس مدرسہ میں آخری مدّرس علامہ شیخ احمد بن سید عبدالغنی الراوی تھے اور یہ تقریباً سن 1367 ہجری / 1947 عیسوی کا زمانہ تھا ۔ 
مدرسہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا جس میں پانچ وقت نماز اور نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی اور اوقاف کھاتے والے اسے چلاتے تھے اور اسی مسجد کو خضر الیاس کا نام دیا گیا تھا اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس مسجد کو اس کے بعد چھوڑ دیا گیا اور حاکم تقی الدین باشا (حاکمِ بغداد سن 1284 تا 1285 ہجری ) نے اسے تعمیر کروایا ۔ 
شیخ محمد صالح سہروردی بیان کرتے ہیں کہ : شیخ محمد طہ شیروانی کرخ میں جامع مسجد خضر الیاس کے قریب آباد ہوئے اور حاکم تقی الدین شیخ کے بہت بڑے  عقیدت مند تھے جس نے مذکورہ مسجد کو تعمیر کروایا اور شیخ نے اسی مسجد میں درس و تدریس کو جاری رکھا ۔
 اسی مسجد میں مغرب کی طرف بالائی طبقے میں تین کمروں والا مدرسہ تھا پس یوسف آفندی سویدی (جو کہ امین عالی باشا کی طرف سے گورنر تھے) نے اسے گرانے کی کوشش کی نتیجہ میں اس نے دوبارہ بنانے کے ارادہ سے اسے گرا دیا کیونکہ وہ جگہ گرنے کے قریب تھی لیکن وہ اسے تعمیر نہیں کرسکا سوائے ایک کمرے کے جو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دائیں طرف تھا اور اسے مسجد کی لازمی اشیاء رکھنے کے لیے اسٹور قرار دیا گیا پھر اسے مدرسہ قرار دیا گیا اور وہ کمرہ مسجد اور مدرسہ کا ادارہ تھا ،وہاں پرکام کرنے والوں کو تنخواہ اور وظیفہ درائرہ اوقاف اور داؤد پاشا کے اوقاف سے دیا جاتا تھا ۔
محققین اور مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام بادشاہوں کے بادشاہ کے بیٹے تھے اور اس کے والد کا نام ملکان تھا اور اس کی بادشاہت بہت بڑٰی تھی اور یہ بادشاہ اہل مملکت کے لیے نیک سیرت تھا اور حضرت خضر علیہ السلام کے علاوہ اسے کوئی اور بیٹا نہیں تھا اور بادشاہ نے حضرت خضر علیہ السلام کو ایک ادب سکھانے والے استاد کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے علم کی تعلیم دے اور ادب سکھائے پس حضرت خضر علیہ السلام روزانہ اس کے پاس جاتے تھے پس ایک دن حضرت خضر علیہ السلام نےراستے میں ایک عبادت گُزار بندے کو پایا پس آپ علیہ السلام نے اس شخص کے حال پر تعجب کیا اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام اس عابد کے پاس بیٹھتے تھے اور اس سے تعلیم حاصل کرتے تھے یہاں تک آپ علیہ السلام عبد اور عبادات کی صفات سے مُزیّن ہوگئے اور اس کے بعد لوگوں سے کٹ کے ایک کمرہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو انجام دیتے ہوئے زندگی گزارتے رہے ۔ 
رپورٹنگ : امیر موسوی 
مترجم : شہباز حسین مہرانی