گھڑی والا مینار(برج ساعۃ)تاریخ کے آئینہ میں

حرم امام حسین علیہ السلام کی انتظامیہ  برج ساعہ کو ہمیشہ محفوظ رکھنے کی خواہاں ہے جو مختلف دور میں دہشت گردوں کے حملہ کی زد میں رہا  یہ  تاریخی  گھٹری  پانچوں وقت نماز کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ حرم کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتی ہے

باب قبلہ کے بالکل اوپر ایک گھڑی والا مینار ہے کہ جسے برج ساعۃ کہا جاتا ہے تاریخی حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن طول  تاریخ میں انسانیت دشمن قوتوں کی طرف سے حرم  پر کئے  جانے والی مختلف  حملوں کی وجہ سے یہ مینار  بھی شدید متاثر ہوتا رہا

1891میں ناصرالدین القجاری (ایران کے ایک بادشاہ)نے اپنے عراق دورہ کے دوران حرم امام حسین علیہ السلام کو ایک گھڑی تخفہ میں دی۔تاریخی ذرائع کے مطابق یہ پہلی گھڑی تھی  جس کو حرم حسینی میں رکھا گیا

یہ گھڑی جرمنی میں تیار کی گئی تھی اور پھر کربلا  لائی گئی اور موجودہ جگہ پر نصب کر دیا ۔کلاک ٹاور کی اونچائی پہلے 10.5 میٹر  تھاور 2003  میں جب حائر حسینی کو توسیع  دی تو اسی  دوران اس  مینار کو بھی بلند کر کے 12 میٹر  تک  کر دیا گیا  تاکہ دور سے  زائرین کو نظر آ سکے

1383ہجری میں حرم امام حسین علیہ السلام کی انتظامیہ نے اس گھٹری کو سونے کے خوبصورت فریم میں لگایا اور مینارے کو مختلف ڈیزائن میں  کربلاء کاشی لگا کر مزین کیا

جس طرح عثمانی دور حکومت میں حرم پر ہونے والے حملے کے نتیجہ میں یہ گھڑی خراب ہو گئی تھی۔ اسی طرح 1991 میں صدام ملعون کی دور حکومت میں بھی حرم پر بھاری توپ خانے اور ٹینکوں کے ذریعے بمباری کی گئی جس سے حرم کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا اور گنبد کا ایک حصہ بھی منہدم ہو گیا اور اس بمباری سے گھڑی والا مینار بھی محفوظ نہ رہ سکا اور جس سے یہ تاریخی گھڑی اپنے بہت سے پرزے کھو بیٹھی اور صدام ملعون کی حکومت کی خاتمے کے بعد حرم کی نئی انتظامیہ نے انجینیئروں کے تعاون سے اس گھڑی کو دوبارہ صحیح کیا اور اب تک یہ گھڑی کام کر رہی ہے۔