معجزة رَدُّالشمس ) حضرت علی علیہ السلام کے لیے سورج کا لوٹایا جانا)

کچھ  تاریخی حوادثات عقل کی حدود اورانسان کی محدودسوچ سے باہر ہوتے ہیں حالانکہ وہ عقلی طور پر محال نہیں ہیں ،ان میں سے کچھ کا تعلق اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کے ساتھ ہے جن کا اثبات تقاضا کرتا ہے کہ یہ امور ثابت شدہ نصوص اور صحیح اخبار سے ہیں ،جیسا کہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو آنے والی نسلوں کی طرف نقل کیا جائے جس سے اطمینان حاصل ہوجائے یہ ان کے اثبات کے لئے صحیح اسلوب ہے البتہ اس قسم کے ظواہر کی عادی انسانی عقل کے ضمن میں اور انسانی محدود سوچ کے ضمن میں تفسیر کی جائے کیونکہ کبھی انسان قانع کنندہ نتیجہ تک نہیں پہنچتا اور اس میں عمل اور اس کی رد زیادہ ہوتی ہے
ان تاریخی واقعات میں ایک ردالشمس (سورج کا لوٹایا جانا )ہے جو فریقین کی کتابوں میں ہے اور ہمارے لئے اخبار نقل کی گئی ہیں کہ ایسے واقعات جملہ انبیااور اولیاء کو حاصل ہوئے ہیں جیسے اللہ کے نبی حضرت سلیمان،حضرت موسیٰ ،حضرت یوشع اور حضرت امام علی علیہم السلام۔
تاریخ اسلام میں  امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے دومرتبہ سورج کو لوٹایا گیا ہے ایک دفعہ رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں اور دوسری دفعہ رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد سورج کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے لوٹایا گیا ہے ۔جیسے خود امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے:اللہ تعالیٰ نے میرے لئے سورج کو دومرتبہ واپس لوٹایا ہے اور امتِ محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم میں میرے سوا کسی کے لئے اسے لوٹایا نہیں گیا ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز عصر پڑھی حضرت علی علیہ السلام آئے انہوں نے نماز عصر نہیں پڑھی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی طرف وحی کی ،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاپناسرحضرت علی علیہ السلام کی گود میں رکھا (یعنی وحی کی حالت پیدا ہوئی) یوں  آپ
صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی گود میں سر رکھ کے سو گئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کو حاصل کریں اب امیرالمؤمنین علیہ السلام حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے تاکہ وحی اور رسالت پہنچنے کی حالت منقطع نہ ہو جائے اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اسی حالت میں اشارے سے نماز پڑھ لی اور جب  رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی گود سے اٹھے توسورج غروب ہو چکا تھا وآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نےفرمایا:یاعلی!کیا تم نے نماز عصر پڑھی ہے ؟امام نے کہا :یارسول اللہ!نہیں رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:خدایا!علی تیری اطاعت میں تھا کیونکہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کاسرعلی  کی گود میں تھا یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھے۔ پس اے اللہ سورج کو واپس لوٹادے ،اس پر سورج واپس لوٹادیاگیا۔
اس جگہ پر مسجد بنائی گئی ہے جس کانام مسجد فضیخ ہے اور اس مسجد کا دوسرا نام مسجد ردالشمس ہے
دوسری دفعہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دنوں میں سورج کا لوٹایا جانا
جویریہ بن مسہر نے نقل کیا ہے:ہم امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ جنگ نہروان سے واپس آرہے تھے جب ارض بابل میں آئے تو نماز عصر کا وقت ہوگیا پھر امیرالمؤمنین علیہ السلام اترے اور لوگ بھی اترے پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اے لوگو!یہ ارض ملعونہ ہے یہ تین مرتبہ عذاب کا شکار بن چکی ہےایک روایت میں دودفعہ کاذکر ہوا ہے اب تیسری با ر عذاب کا شکار ہونے کی توقع ہے یہ الٹ پلٹ ہونے والی زمینوں میں سے ایک ہے جس میں شہر اپنے اہل کے ساتھ الٹ گیا   یہ پہلی زمین ہے جس میں بتوں کی پوجا کی گئی ہے ،نبی اور نبی کے وصی کے لئے اس زمین میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے تم میں سے جو یہاں نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے پس لوگ راستے کی ایک جانب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور امام علیہ السلام رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خچر پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔جویریہ کہتا ہے :میں نے کہا:بخدا قسم!میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پیچھے جاؤں گا اور آج کی نماز میں ان کی اقتدا میں  پڑوں گاپس میں ان کے پیچھے چل دیا خدا کی قسم!ہم سورا کی پلِ سورا عبور نہیں کرپائے تھے (سورا :ارض بابل عراق کی جگہ ہے  )یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا پس میں نے شک کیا ،مولا میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا:اے جویریہ کیا توشک کررہا ہے ؟میں نے کہا :ہاں یاامیرالمؤمنین!امام ایک جگہ اترے وضو کیا اور کھڑے ہوئے اور کچھ کلام کی جسےِ میں سمجھ نہ سکا گویا عبرانی زبان  میں تھی پھر نماز کے لئے آواز دی میں نے دیکھا بخدا قسم!سورج دوپہاڑیوں کے درمیان سے نکلا اور بلند ہوا،امام نے نماز عصر پڑھی اور میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پس جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو رات ہوگئی جیسے پہلے تھی اب امام میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:اے جویریہ بن مسہر !اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :فسبح باسم ربک العظیم (اپنے رب کے عظیم نام سے تسبیح کر

میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے اسم اعظیم کے واسطہ سے دعا کی ہے اور اس نے میرے لئے سورج کو واپس لوٹادیا ہے۔روایت میں ہے:جب جویریہ نے اس معجزہ کو دیکھا تو کہا :انت وصی نبی ورب الکعبة۔(رب کعبہ کی قسم آپ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کےوصی ہیں) (من لا یحضرہ الفقیہ:

٢٠٣١حدیث ٦١١)