حضرت زینب بنت علی علیہما السلام کے فضائل

 

تحریر: مولانا شھباز حسین مہرانی

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عزت اور عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ آپ سلام اللہ علیہا نے ایسے پاک و طاہر گھرانے میں پرورش پائی کہ جس میں ذکرِ الہی ہمیشہ کمال کی منزل تک پہنچا ہوا تھا اور جس میں مولا علی علیہ السلام کے علم وحکمت کی سر پرستی ہوتی، جہاں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے لطف وکرم کا سایہ رہتا، جہاں جوانانِ جنت کے سرداروں کی محفل نصیب ہوتی ،ایسےعظیم گھر میں تربیت و پرورش پانے والی شخصیت کا حق یہی کہ وہ ہر کمال کے اعلی ترین مراتب پر فائز ہواور یہی وجہ ہے کہ سیدہ  زینب سلام اللہ علیہا صفاتِ کمال اور فضائل کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تھیں اور  انہی فضائل و مناقب کی وجہ سے آپ کو   بنی ہاشم،عالمۃ غَیرُمُعَلَّمَہ، عارفہ،موثّقہ،فاضلہ،كاملہ،عابدہ آل علی،معصومۃ صغری،نائبۃ الزہرا،نائبۃ الحسین،عقیلۃ النساء،شریكۃ الشہداء اور شریكۃ الحسین اور بہت سے دوسرے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔

سیدہ زینب بنت علی علیہما السلام  کی شخصیت اور عظمت اتنی بلند و بالا ہے کہ اسے کماحقہ بیان کرنا ایسے ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کیا جائے،آپ   آپ کے مقام و منزلت کا یہ عالم ہے کہکا نام وحی کے ذریعے معین ہواان کی مصیبت میں رونا امام حسن اور امام حسین  (علیہما السلام) پر رونے کے برابر ہے 

955 :أنّ الحسين عليه السّلام كان إذا زارته زينب عليها السّلام يقوم إجلالا لها، و كان يجلسها في مكانه‏۔( عوالم العلوم,  جلد۱۱,  صفحه

جب سیدہ  زینب سلام اللہ علیہا ، امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتی تھیں تو امام حسین علیہ السلام  آپ کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے تھے اور آپ کو اپنی جگہ پر بیٹھاتے تھے۔

امام سجاد علیہ السلام آپ کی شان والا صفات میں فرماتے ہیں :أنتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَيرُ مُعَلَّمَةٍ، فَهِمَةٌ غَيرُ مُفهَّمَةٍ۔(بحارالأنوار ,  جلد۴۵  ,  صفحه۱۶۲) 

اے زینب (سلام اللہ علیہا )! آپ بحمدالله ایسی عالمہ ہیں جس نے کسی معلم کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں کیا، اور ایسی دانا اور علم والی ہیں جس نے کسی سے نہیں سیکھا ۔

اور اسی طرح علامہ محسن امین رح لکھتے ہیں کہ  کانت زینب من فضليات النساء. وفضلها أشهر من أن يذكر وأبين من أن يسطر.وتعلم جلالة شانها وعلو مكانها وقوة حجتها ورجاحة عقلها وثبات جنانها وفصاحة لسانها وبلاغة مقالها حتى كأنها تفرع عن لسان أبيها أمير المؤمنينؑ من خطبها بالكوفة والشام واحتجاجها على يزيد وابن زياد بما فحمهما حتى لجا إلى سوء القول والشتم واظهار الشماتة والسباب الذي هو سلاح العاجز عن إقامة الحجة وليس عجيبا من زينب ان تكون كذلك وهي فرع من فروع الشجرة الطيبة النبوية والأرومة الهاشمية۔ أعيان الشيعة،ج 7 ص) 137)

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بافضيلت ترين خواتین میں سے تھیں ان کی فضیلت اس سے کہیں زیادہ شہرہ آفاق ہے کہ ذکر کیا جائے اور اس سے کہیں زیادہ واضح کہ سطروں میں لایا جا سکے۔

انکی عظمت و جلالت و منزلت، قوت استدلال، بلوغ عقل، ثبات قلب، فصاحت زبان، بلاغت بیان کا یہ عالم تھا کہ گویا کوفہ و شام میں اپنے بابا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لہجے میں خطبہ دیا ہو۔ ابن زیاد اور یزید کے سامنے آپ کا احتجاج ایسا کہ ان کو خاموش کردیا یہاں تک کہ وہ بدگوئی، سب و شتم گالی گلوج پر اتر آئے جو عاجز و لاچار اور دلیل نہ رکھنے والوں کا اسلحہ ہوا کرتا ہے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں جب کہ وہ شجر طیبہَ نبوت، اور نسل پاک ہاشمیہ کی ایک شاخ ہیں۔

عفت اور پاکدامنی خواتین کے لیے سب سے زیادہ قیمتی زیوراورگوہر ہے،سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے یہ درس حیا اورعفت اپنی ماں سے حاصل کیا اوردوسری طرف سے خود سیدہ کی ذاتی شرم و حیا اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ عفت اور پاکدامنی کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں ،ہم اس مورد میں ایک روایت پر اکتفاء کرتے ہیں یحیی المازنی کہتے ہیں  

كنت في جوار أمير المؤمنين عليه السّلام في المدينة مدّة مديدة، و بالقرب من البيت الّذي تسكنه زينب ابنته، فلا- و اللّه- ما رأيت لها شخصا، و لا سمعت لها صوتا.و كانت إذا أرادت الخروج لزيارة جدّها رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم تخرج ليلا، و الحسن عن يمينها، و الحسين عن شمالها، و أمير المؤمنين أمامها، فإذا قربت من القبر الشريف سبقها أمير المؤمنين عليه السّلام فأخمد ضوء القناديل، فسأله الحسن مرّة عن ذلك؟فقال: أخشى أن ينظر أحد إلى شخص اختك زينب.( زينب الكبري ( النقدي، الشيخ  1جلد 122جعفر  صفحه : 22

میں مدینہ میں کافی دنوں تک امیر المؤمنین علیہ السلام  کے ہمسائے میں تھا، خدا کی قسم میں نے کبھی بھی نہ جناب زینبؑ کو دیکھا اور نہ ہی انکی آواز سنی۔ جب بھی وہ اپنے جد حضرت رسولخداؐ کی زیارت کا ارادہ کرتیں، رات کی تاریکی میں گھر سے نکلتیں، حسنؑ دائیں جانب اور حسینؑ بائیں جانب اور امیر المؤمنینؑ آگے آگے ہوتے۔ جب وہ قبر کے قریب پہنچتیں تو چراغ کی روشنی بجھا دیتے، امام حسنؑ نے ایک بار سوال کیا؟ تو امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: تاکہ تمہاری بہن زینب کو کوئی دیکھ نہ سکے۔

سیدہ  زینب (سلام اللہ علیھا ) کی خاندانی تربیت اور ذاتی حیا اس بات کا باعث بنی کہ آپ نے سخت ترین حالات میں بھی عفت اور پاکدامنی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کربلا سے شام تک کا سفر میں جو آپ کے لیے سب سے زیادہ سخت مرحلہ تھا آپ نے عفت و پاکدامنی کی ایسی بلند تاریخ رقم کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ مؤرخین لکھتے ہیں

وَهِيَ تَسْتُرُ وَجْهَها بِكَفِّها لاَِنَّ قِناعَها اُخِذَ مِنْها (ميزان الحكمه، محمدي ري ‏شهري، ج۲، ص۷۱۷،

 آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا کرتی تھیں چونکہ آپ کی ردا کو چھین لیا گیا تھا