سعادت ابدی

•  شيخ بلال النجفى (تيسرى قسط)

ارشاد رب العزت  اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ‌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ‌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ

خداتعالیٰ  کی ذات کے حوالے سے دونقاط میںعموماًبحث کی جاتی ہے۔
(١)وجودخدا (٢) توحید خدا
پہلے نقطہ سے مراد یہ ہے کہ اس کا ئنات کو بنانے والا کوئی ضرور ہے ۔چونکہ دنیا کی کوئی چیز خود سے وجود میں نہیں آتی ۔جیسا کہ بوڑھی خاتون نے اپنے چرخے کی مثال سے دلیل دی کہ جب تک اس کو حرکت نہ دوں گردش نہیں کرتا تو یہ شمش و قمر لیل و نہار اور دنیا کا نظام خود بخود کیسے چل سکتا ہے ۔
اور دوسرے نقطے سے مراد یہ ہے کہ اس کائنات کو بنانے والا اور اس کا نظام چلانے والا وحدہ لا شریک ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید کی آیت ہے '›لو کان فیھما آلاھة الا اللہ لفسدتا '› اگر اس زمین و آسما ن میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسر ا خدا (نعوذ باللہ ) موجود ہوتا تو اس کا نظام تباہ ہو جاتا ۔
کیونکہ فرض کریں معاذ اللہ اگر دو خدا ہوتے تو اس کائنات کا نظام چلانے میں ان کو ایک دوسرے کے مشورے اور مدد کی حاجت ہوتی یا نہ ہوتی ۔اگر حاجت نہیں تو دوسرے کا وجود فالتو ۔اس کی ضرورت نہیں ۔چونکہ دوسرے کے مشورے اور مدد کے بغیر جب ایک اکیلا اس کائنات کا نظام چلانے میں کافی ہے تو دوسرے کی ضرورت کیوں ؟ اور اگر محتاج ہوتے ایک دوسرے کے تو جو محتاج ہو وہ خدا نہیں ہوتا ۔اور پھر اس بات کی کوئی گارنٹی نہ تھی کہ دونوں کی رائے ایک ہوتی ۔
دونوں کی بات ایک ہوتی،دونوں ہر بات ،ہر کلام ،ہر قانون ،ہر نظام میں ایک دوسرے سے متفق ہوتے۔اور ان کی عدم اتفاقی سے کائنات تباہ ہو جاتا ۔اس وجہ سے ایک ملک کے دو صدرنہیں ہو تے ۔ دو وزیر اعظم نہیں ہوتے ۔بلکہ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات بالکل برابر برابر نہیں ہوتے ۔کیونکہ خدا تعالیٰ کی ذات اور حقیقت کی معرفت محال ہے حتی کہ نبی و امام بھی اس کو درک نہیں کر سکتے ۔قرآن مجید میں وہ خود ارشاد فرماتا ہے '›لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار '›۔اور اس کی معرفت فقط صفات کے ذریعے ہی ممکن ہے اس لئے وجود توحید پہ دلیل کے بعد صفات کی معرفت ضروری ہے ۔اور کلمہ طیبہ میں ان دونوں نقاط کی طرف اشارہ موجود ہے ۔استثنیٰ کا لفظ یعنی '›الااللہ›› وجود خدا کے اقرار کے لئے ہے اور حصر کلام (کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ) عقیدہ توحید کے اقرار کے لئے ہے ۔
خدائے تعالیٰ کے وجود اور وحدانیت پر دلیل کے بعد اس کے صفات کی معرفت ضروری ہے ۔اور پہلی قسط میں ہم نے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ کے نام بتلائے تھے اب ہر ایک کا تعارف و مطلب بیان کرتے ہیں ۔
صفات ثبوتیہ۔
عالم ۔خدا تعالیٰ کائنات کی ہر شی کا عالم ہے ۔اور ایسا نہیں کہ اشیاء کے پیدا ہونے کے بعد ان کا علم حاصل ہوا ہے۔ بلکہ ان کی خلقت سے پہلے بھی ویسے ہی ان کا علم تھا جیسے اب ہے ۔اور ان کی خلقت سے اس کے علم میں اضافہ نہیں ہوا۔کیونکہ اس کا علم اس کی عین ذات ہے ۔علم اور ذات دو الگ الگ چیزیں نہیں۔ اور ذات اس کی کائنات کی خلقت سے پہلے بھی تھی بعد میں بھی ہے۔لہذٰا اس کو ساری کائنات کا علم ان کی خلقت سے پہلے بھی تھا اب بھی ہے ۔
قادر ۔کائنات کی ہر شی اس کے قبضہ قدرت میں ہے ۔کوئی بھی چیز اس کی قدرت کے دائرہ سے باہر نہیں۔تا کہ اس کی قدرت کو چیلنج کرے ۔مگر وہ اپنی قدرت کو استعمال کرتا ہے اپنی حکمت و عدالت کی روشنی میں ۔جبکہ دنیا کے مشاہدات میں جتنا کوئی پاور فل ہوتا ہے اتنا ظالم ہوتا ہے ۔اور وہ قادر مطلق ہونے کے باوجود پاور کو بے جا استعمال نہیں کرتا ۔یہی اس کی قدرت کی عظمت ہے
حی۔ ایسا زندہ ہے کہ وہاں فناء اور موت کا کوئی تصور نہیں چونکہ زندگی اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات لم یزل ولا یزال ہے ۔جبکہ ہماری زندگی اور ذات دو الگ الگ چیزیں ہے ۔اس لئے ایک دن زندگی ہم کو موت کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتی ہے ۔
سمیع ۔ کائنات کی ہر شئی کی زبان و آواز کو سنتا و سمجھتا ہے مگر کان یا کسی آلہ کا محتاج نہیں ۔
بصیر ۔کائنات کی کوئی چیز اس سے اوجھل نہیں ہر شی ء کو ہر وقت وہ دیکھ رہا ہے ۔چشم زدن کے لئے بھی کوئی چیز اس کی نظر سے غائب نہیں ہو سکتی ۔مگر دیکھنے کے لئے اس کو آنکھ وغیرہ کی حاجت نہٰں ۔
مرید ۔جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادہ و اختیار سیت انجام دیتا ہے کسی کام میں کسی قسم کی بھی اس کے لئے مجبور ی پیدا نہیں ہوتی۔جبکہ ہم کبھی والدین کے ہاتھوں ،کبھی معاشرے وسماج کے ہاتھوں اور کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اپنے کاموں میں ۔
مدرک ۔کائنات کی ہر شئی فرداً فرداً اس کے مشاہدہ میں ہے ۔لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار '› لیکن وہ کسی ادارک و مشاہدہ میں نہیں سما سکتا ۔
ازلی وابدی ۔وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی ابتدا ء و انتہا نہیں ہے ۔اس کی ذات لا محدود، اس کی صفات لا محدود، اس کا وجود لا محدود، اس کا فیض وجود لا محدود ۔
صفات سلبیہ۔
مجسم نہیں ۔وہ جسم و اعضاء نہیں رکھتا ۔جیسا کہ بہت سی چیزیں اور بھی ایسی ہیں جو مودد ہیں وجود رکھتی ہیں ۔مگر ہو جسم واعضاء نہیں رکھتی ۔مثلاً روح ،آنکھوں کی بینائی ،لائٹ (بجلی) ۔
مرئی نہیں ۔دنیا و آخرت میں کبھی بھی اسے دیکھا نہیں جا سکتا ۔بلکہ حواس خمسہ میں سے کسی کے ساتھ اس کو حس نہیں کیا جا سکتا ۔چونکہ وہ محسو س ہونے والی چیزوں میں سے نہیں ہے ۔
لامکان ۔ دنیا کی ہر شیٔ کسی نہ کسی جگہ اور وقت کے اندر پائی جاتی ہے مگر وہ زمان و مکان کے اندر نہیں ۔بلکہ ان سے ماوراء ہے ۔نہ جگہ میں سماتا ہے نہ وقت خاص میں پایا جاتا ہے ۔
مرکب نہیں ۔ نہ وہ اجزاء سے مرکب ہے ۔نہ کسی چیز کے ساتھ مکس ہے جیسے پانی دو گیس سے مرکب ہے اور انسانی جسم اربعہ عناصر سے مل کر بنا ہے ۔
حلول نہیں رکھتا ۔ جس طرح پانی میں چینی ڈالی جائے تو اس میں حل ہو جاتی ہے اس طرح دنیا کی کسی شیٔ میں وہ حل نہیں ہوتا ۔یا جس طرح خدا نخواستہ کسی انسان کو آسیب کا اثر ہو جاتا ہے اس طرح وہ کسی کے جسم میں سرایت نہیں کرتا ۔
محل حوادث نہیں ۔اس کے اندر کسی قسم کی موسمی وغیرموسمی تبدیلی نہیں آتی ۔ نہ اس کے علم میں کمی بیشی ہوتی ہے ،نہ طاقت میں کمزور ی و زیادتی ہے ۔نہ زندگی میں بچپن و بڑھاپا ہے ۔
جوہرو عرض نہیں ۔نہ اس کا وجود کسی دوسرے وجود کے ذریعہ قائم ہے جس طرح مٹھاس کا وجود چینی کے ذریعہ قائم ہے ۔ اور نہ ہی اس کی ذات کی علمی قواعد وقوانین کے ذریعے ڈیفنیشن (ڈیفی نیشن) بیان کی جا سکتی ہے ۔
خدا ئے تعالیٰ کی صفات کی دو قسمیں ہیں ۔
کچھ اس کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ یہی صفات ثبوتہ اور سلبیہ ہیں ۔
اور کچھ اس کے مقام و فعل سے تعلق رکھتی ہیں ۔مثلاً رازق، خالق، عادل، وغیرہ
اور پہلے قسم کا تعلق چونکہ ذات سے ہے ۔ اس لئے ذات کی معرفت انہیں میں ہی منحصر ہے ۔
اور دوسر ی قسم کا تعلق ان افعال سے ہے جن کے ذریعہ کائنات کا نظام اور مخلوقات کی خلقت حاصل ہوتی ہے ۔کائنات کا وجود، مخلوقات کی خلقت، اور ان کے اندر رائج نظام تکامل (نظام تکوینی) اور نظام شریعت یہ سب اس کے افعال کا نتیجہ ہے ۔یعنی خلق کرنا فعل ہے تو نتیجے میں مخلوقات وجود میں آئیں ۔اور رزق دینا فعل ہے تو نتیجے میں کائنات کے نمو اور تکامل کا نظام چل رہا ہے ۔
خلقت کی ابتداء ے دنیا کی انتہا تک اس کائنات کے اندر دو قسم کے نظام رائج ہیں نظام تکوینی اور نظام تشریعی
نظام تکوینی سے مراد اشیاء کی خلقت اور ان کے وجود میں حرکت و تکامل کا نظام ہے ۔اس نظام کا دو چیزوں میں دخل ہے ۔
(١) خلقت ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے کسی کو انسان پیدا کیا ہے ،کسی کو حیوان ،کسی کو جنات ،کسی کو جمادات ،کسی کو مزکر ،کسی کو مونث ،کسی کو اس قوم و قبیلہ میں ،کسی کو دوسرے قوم و قبیلہ میں ،کسی کو اس ملک میں ،کسی کو اس ملک میں ،کسی کو سیاہ فام ،کسی کو سفید کلر۔مگر اس نے اپنی مخلوقات کی خلقت کی بنیاد اپنی حکمت اور عدالت پر رکھی ہے ۔کیونکہ وہی ہر بشر ،ہر انسان ،ہر حیوان ،ہر چرند ،پرند،اور ہر مخلوق کا سوفٹ ویئر بنانے والا ہے ۔تو وہ بہتر جانتا ہے کس کو کیسا ،کہاں ،اور کس ٹائپ کا بناتا ہے ۔لہذا اگر اس نے کسی کو خاتون بنایا ہے تو اسے حق نہیں کہے کہ مجھے مرد کیوں نہیں بنایا ۔کیونکہ اس کی جو سوفٹ ویئر ہے اس کے مطابق اسکا خاتون ہونا ہی اس کے لئے زیادہ بہتر ہے ۔ اس طرح اگر کس کو ایشیا ء میں پیدا کیا ہے تو وہ نہیں کہہ سکتا مجھے یورپ میں کیوں پیدا نہیں کیا ۔کیونکہ بنانے والا عادل ہے اور حکمت کے تحت بنایا ہے ۔تو اس کے لئے حکمت اسی میں تھی کہ یہ اس ملک اس قوم اس زبان کے لوگوں میں پیدا ہو ۔لہذا اس سوال کا کسی کو حق نہیں ۔اگر کوئی اس کی جرات کرے گا تو وہی جو اصول دین میں عدالت کا قائل نہیں ۔اور جو عدالت کا قائل نہیں خدا تعالیٰ سے نعوذ باللہ ظلم کے صدور کا قائل ہے ۔اور جو ظلم کے صدور کا قائل ہے وہ ملحد ہے ۔
٢۔حرکت ۔خلقت کے بعد اس کے وجود میں نمو اور تکامل کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے اس نمو کو حرکت کہتے ہیں ۔یعنی بیج سے لیکر پھل دار پودا بننے تک اور بچپن سے لیکر ریٹائرڈ بوڑھا بننے تک ۔بلکہ موت ،قبر ،حشر تک بہت سے حالات سے ہرمخلوق گزرتا ہے ۔ان حالات کا ہر مخلوق کے جسم و باڈی یعنی جسمانی میٹریل اور روح پر کچھ اثر مرتب ہوتا ہے ۔اس لئے کبھی بچہ ہے تو کبھی بوڑھا کبھی صحت مند ہے تو کبھی بیمار ،کبھی پھول و پھل کا سماں ہے تو کبھی بے رونق ثمر، کبھی امیر ہے تو کبھی غریب ،کبھی عالم ہے کبھی جاہل وغیرہ ۔
اور حالات کا جو اثر مرتب ہوتا ہے وہ نظام تکوینی کے اسباب کے تحت ہے چونکہ اس نظام کے اندر سسٹم ہے علل و اسباب کا اور انسان جس سبب کو اپنائے گا اسی کے مطابق نتیجہ پائے گا یا جس سبب کی زد میں آئے گا اس کی اثر کا شکار ہو جائے گا ۔
اور اسباب کی نقل و حرکت اور ان کی تاثیر پروردگار کی وسعت قدرت میں ہے ۔اور وہ ان اسباب کو اپنی عدالت و حکمت کے مطابق گردش دیتا ہے لہذا کوئی اپنی خستہ حالت کا شکوہ اس کی عدالت کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس حالت کا سبب اگر انسان نے خود اختیار کیا ہے تو یہ اس کی اپنی خطا ہے ۔
اور اگر خود نہیں بلکہ سبب کی زد میں آگیا ہے تو یہ من جانب اللہ ہے جو کہ اس کے کسی گناہ کی سزا ہے یا پھر اس وقت اس آدمی کے حق میں وہی خستہ حالت ہی بہتر ہے ۔چونکہ وہ نہیں جانتا اس حالت میں آکر وہ دنیا یا آخرت کی کتنی مشکلات سے بچ گیا ہے ۔اور اس کا وظیفہ بس اتنا ہے اس خستہ حالت کے علاج والے سبب کو اپنائے ۔اور جس وقت اس کی غیر معلومہ مشکل ٹل جائے گی تو خدا تعالیٰ اس کو فیضاب کر دے گا ۔اس سبب کے ذریعے ۔چونکہ اسباب کی تاثیر اس کا فیض و کرم ہے ۔الغرض نظام تکوینی کے دونوں اقسام خلقت اور تکامل (حرکت ) اس کی عدالت پر قائم ہیں ۔
٢۔ نظام تشریعی ۔یہ نظام فقط انسان اور جنات کے لئے ہے ۔یعنی اس مخلوق کے لئے جس میں اچھائی و برائی دونوں دونوں افعال کے آبشن ہیں ۔اور جس میں فقط نیکی یا فقط برائی کا آپشن ہے بلکہ ان میں نہ یہ ہے نہ وہ ،اس مخلوق کے لئے یہ نظام نہیں ۔جبکہ تکوینی نظام کا ئنات کی ہر مخلوق کو شامل ہے ۔نظام تشریعی انسان کے ان افعال کے لئے ہے جس کو اپنے ارادہ و اختیار سے انجام دیا جا سکتا ہے ۔ جن کو انجام دینا اور ترک کر نا انسان کے اختیار میں ہے ۔
ان افعال میں سے جو افعال انسان کی روح ،عقل اور جسمانی صحت کے لئے مضر ہیں ان سے منع کیا ہے اور جو مفید ہیں ان کو انجام دینے کا حکم دیاہے ۔تا کہ انسان ممنوع کو ترک کر کے اور مامور کو انجام دیکر تقرب الیٰ اللہ کا سفر طے کر سکے اور یہ سفر روح و عقل کرتی ہے جسم نہیں ۔اور اس نظام کی بنیاد بھی عد ل الہی پر قائم ہے جس شی کو اس نے حرام بنایا ہے انسان کو حق نہیں اس کی لذت کو دیکھ کر کہے ا س کو حلال ہونا چاہئیے تھا ۔یا جس کو حلال بنایا ہے اس کی کڑواہٹ دیکھ کر کہے اس کو حرام ہونا چاہیے ء تھا ۔کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کونسی چیز یا کونسا عمل اس کی دنیا و آخرت کے لئے مفید ہے اور کونسا مضر۔اور اس نظام کی پابندی کرنے والے کو جزاء اور مخالفت کرنے والے کو سزا بھی اس کی عدالت پر مبنی ہے ۔نہ کسی کی ذرا بھی جزاء  ضائع ہوگی ۔نہ کسی کو جرم سے زیادہ سزاء ہوگی ۔