شیعہ کون ہے؟

سید عباس النقوی

آج مسلمان پراگندہ ہیں ، انہیں آپس میں اتحاد و اتفاق اور باہمی تعلقات خوب سے خوب تر اور مضبوط سے مضبوط  تر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شیعہ کون ہے ؟ کے عنوان سے لکھ کر اپنے عقائد بیان کر کے ان سادہ لوح مسلمانوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ شیعہ بھی اسلامی فرقوں میں سے ایک مسلم فرقہ ہے جس کا اقرار جامعة الازہر کے رئیس علامہ شیخ محمد شلتوت نے اپنے فتویٰ میں مذہب جعفری (شیعہ)کو اسلامی فرقہ تسلیم کیا ہے۔ واضح رہے کہ شیعہ عقائد تمام قرآنی اصولوں ،سنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور سیرت آئمہ علیہ السلام پر قائم ہیں ۔ ہم گزشتہ شمارے میں تعارف تشیع کے حوالے سے کچھ نکات بیان کر چکے ہیں مزید کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں جن کا بیان کرنا اس وقت مقصود ہے ۔

.1اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم خداوند تعالیٰ کی کی نازل کردہ وہ آخری کتاب ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور یہ وہی قرآن کریم ہے جس کے متعلق خدا نے فرمایا  ﴿انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون ﴾ حجر 9ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔جو شخص بھی اہل تشیع کوتحریف قرآن  کے حوالے سے متھم کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اس کا یہ الزام باطل ہے جہاں تک مصحف علی  علیہ السلام یا مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہ کی بات ہے تو وہ ونوں مصاحف (کتابیں)قرآن مجید کے علاوہ ہیں ۔ یہ وہ کتب ہیں جو حوادث ، تاریخ و تفسیر قرآن کے متعلق تھیں ۔

.2انبیا پر اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیاء و رسل بھیجے جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور یہ تمام کے تمام انبیاء اپنے ادوار میں مقدس ترین ، پاکیزہ ترین ، قابل عزت و احترام و توقیر ہیں ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی جائز نہیں ہے ۔ ان میں سے پانچ اولعزم انبیاء ہیں حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ابراہیم  علیہ السلام،حضرت موسیٰ  علیہ السلام،حضرت عیسیٰ  علیہ السلام اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ تمام کے تمام قابل تعظیم انبیاء ہیں جن کی نبوت قرآن و حدیث اور تاریخ سے ثابت ہے۔

.3آئمہ علیہم السلام۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے خداوند متعال نے جب نبوت کا باب بند کیا تب بھی اپنی مخلوق کی ہدایت کا دروازہ کھلا رکھا اس حوالے سے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ۔

﴿ انت منذر و لكل قوم هاد ﴾ اے رسول آپ آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہوگا ۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی احادیث میں بارہ امام ، بارہ نائب ، بارہ نقباء ، بارہ جانشین ، بارہ اوصیاء ، بارہ خلفاء کو حوالوں سے ذکر فرمایا ہے اور کئی موقعوں پر ان کے نام بھی بیان فرمائے ہیں اور واضح ترین احادیث میں فرمایا ہے کہ بارہواں نائب و خلیفہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ۔ اس طرح کی احادیث عامہ و خاصہ کی کتب میں پائی جاتی ہیں ۔ اسلامی فرقوںمیں کوئی بھی فرقہ اس قسم کا موجود نہیں ہے جس قسم کا سلسلہ امامت اہل تشیع کا موجود ہے ۔ جن کا علم ،حلم و شجاعت و سخاوت ، انداز و اطوار ، سیرت و کردار اور قول و عمل رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتنا مشابہہ ہو جتنا اثناء عشری کے آئمہ اثنا عشر میں موجود ہے کیونکہ یہی وارث رسول ہیں ۔ ممکن ہے دنیا والے کوئی بھی بارہ افراد کی فہرست پیش کر دیں لیکن صاحبان عقل و ادراک ان کو خدا کے نمائندگان کے مقابلے میں لا کر خود فیصلہ کرلیں ۔ حضرت علی علیہ السلام سے لے کر مہدی آخر الزمان تک کوئی بھی ایسا امام نہیں جس نے لمحہ بھر بھی شرک و بت پرستی یا کوئی بھی گناہ کبیرہ و صغیرہ  انجام دیا ہو ۔ مظلوموں کی فہرست میں ہمارے اماموں کا شمار ہوتا ہے لیکن کوئی ایک بھی امام ایک لمحہ کے لئے بھی ظالم نہیں تھے۔ نہ ہی بارہ اماموں میںسے کسی نے کم علمی کی بناء پر کسی کے دروازے پر سر کو جھکایا ہے۔

اہل تشیع تمام امت مسلمہ کو باوجود اس کے کہ ان میں فروعی اختلاف موجود ہوں امت واحدہ سمجھتی ہے اور تمام امت کو ایک خدا ایک رسول ایک قرآن کی بنیاد پر متحد و متفق دیکھنا چاہتے ہیں اور اس اتفاق و اتحاد کا نتیجہ عزت و احترام مومنین ہو گا۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں

الاسلام یعلو ا ولا یعلى علیه  اسلام ہمیشہ بلند رہے گا اس پر کوئی دوسرا مذہب بلندنہیں ہو گا ۔

قرآن میں شیعہ : سورہ صافات نمبر 83میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا   وان من شیعة لا براہیم

حضرت نوح علیہ السلام  کے اتباع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گردانا گیا ہے یہی لفظ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام  کے اتباع کرنے والے(پیروکار)کے لئے استعمال کیا ہے ۔ جس طرح کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

یا علی انت و شیعتك هم الفائزون یا علی آپ اور آپ کے شیعہ ہی کامیاب ہیں اس لئے ہی رسول اکرم صل اللہ علیہ واالہ وسلم کی زندگی میں ہی حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والے اسی نام سے پہچانے جانے لگے۔

(جاری ہے)